سورة ھود - آیت 5

أَلَا إِنَّهُمْ يَثْنُونَ صُدُورَهُمْ لِيَسْتَخْفُوا مِنْهُ ۚ أَلَا حِينَ يَسْتَغْشُونَ ثِيَابَهُمْ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّونَ وَمَا يُعْلِنُونَ ۚ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(اے پیغمبر) تو سن رکھ کہ یہ لوگ اپنے سینو کو لپیٹے ہیں کہ اللہ سے چھپیں (یعنی اپنے دل کی باتیں چھپا کر رکھتے ہیں) مگر یاد رکھ (انسان کی کوئی بات بھی اللہ سے پوشیدہ نہیں) یہ جب اپنے سارے کپڑے اوپر ڈال لیتے ہیں تو اس وقت بھی چھپ نہیں سکتے، جو کچھ یہ چھپا کر کریں اور جو کچھ کھلم کھلا کریں سب اللہ کو معلوم ہے، وہ تو سینوں کے اندر کا بھید جاننے والا ہے۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

اس آیت کا مقصد اللہ تعالیٰ کے علم محیط کی وسعت کو بیان کرنا ہے کہ کھلی اور چھپی چیزیں تو کجا وہ تو دلوں کے ارادوں تک سے واقف ہے۔ اس آیت کی شان نزول میں مفسرین کا اختلاف ہے۔ اس لیے اس کے مفہوم میں بھی اختلاف ہے۔صحیح بخاری میں شان نزول سے معلوم ہوتا ہے ۔محمد بن عبید اللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ یہ آیت کسی باب میں اتری ہے۔ تو انھوں نے کہا: کچھ لوگ رفع حاجت کے وقت یا اپنی بیویوں سے صحبت کرتے وقت آسمان کی طرف ستر کھولنے سے (پروردگار سے) شرماتے اور شرم کے مارے جھکے جاتے تھے اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔ (بخاری: ۴۶۸۳) اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ رات کو اندھیرے میں جب وہ بستروں میں اپنے آپ کو کپڑوں میں ڈھانپ لیتے تھے تو اس وقت بھی وہ ان کو دیکھتا اور ان کی چھپی اور اعلانیہ باتوں کا جانتا ہے۔ مطلب یہ کہ شرم و حیا کا جذبہ اپنی جگہ بہت اچھا ہے لیکن اس میں اتنا غلو میں صحیح نہیں، اس لیے کہ جس ذات کی خاطر وہ ایسا کرتے ہیں اس سے تو پھر بھی وہ نہیں چھپ سکتے۔ تو پھر اس طرح کے تکلف کا کیا فائدہ؟ الحمدللہ