ثُمَّ نُنَجِّي رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا ۚ كَذَٰلِكَ حَقًّا عَلَيْنَا نُنجِ الْمُؤْمِنِينَ
پھر (جب عذاب کی گھڑی آجاتی ہے تو ہمارا قانون ہے کہ) اپنے رسولوں کو اور مومنوں کو اس سے بچا لیتے ہیں۔ اسی طرح ہم نے اپنے اوپر ضروری ٹھہرا لیا ہے کہ مومنوں کو بچا لیا کریں۔
رسولوں پر ایمان لانے والوں کو بچانا اللہ کی ذمہ داری ہے: اللہ تعالیٰ کا ہمیشہ یہ دستور رہا ہے کہ جب کسی مجرم قوم پر اپنے رسول کی تکذیب کی وجہ سے عذاب نازل کرتا ہے۔ تو وحی کے ذریعے سے عذاب کی آمد اور اس سے بچاؤ کی صورت بھی سمجھا دیتا ہے۔ اس طرح رسول پر ایمان لانے والے تو اس عذاب سے بچ جاتے ہیں اور مجرمین ہلاک ہو جاتے ہیں۔ دراصل یہ اہل مکہ کو انتباہ ہے جو مسلمانوں اور پیغمبر اسلام کو اذیتیں پہنچانے میں اپنا ایڑی چوٹی کا زور صرف کر رہے تھے کہ تمھارا بھی وہی حشر ہونے والا ہے جو سابقہ مجرموں کا ہو چکا ہے۔ ان کمزور اور ستم رسیدہ مسلمانوں کو تمھاری چیرہ دستیوں سے بچانا اور انھیں تم پر غالب کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔