وَلَقَدْ بَوَّأْنَا بَنِي إِسْرَائِيلَ مُبَوَّأَ صِدْقٍ وَرَزَقْنَاهُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ فَمَا اخْتَلَفُوا حَتَّىٰ جَاءَهُمُ الْعِلْمُ ۚ إِنَّ رَبَّكَ يَقْضِي بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ
اور ہم نے بنی اسرائیل کو (اپنے عدہ کے مطابق فلسطین میں) بسنے کا بہت اچھا ٹھکانا دیا تھا اور پاکیزہ چیزوں سے ان کی روزی کا سامان کردیا تھا، پھر جب کبھی انہوں نے (دین حق کے بارے میں) اختلاف کیا تو علم کی روشنی ضرور ان پر نمودار ہوئی (یعنی ان میں یکے بعد دیگرے نبی مبعوث ہوتے رہے لیکن پھر بھی وہ حقیقت پر متفق نہ ہوئے) قیامت کے دن تمہارا پروردگار ان کے درمیان ان باتوں کا فیصلہ کردے گا جن میں باہم اختلاف کرتے رہے ہیں (یعنی انہیں معلوم ہوجائے گا کہ حقیقت حال کیا تھی)
بنی اسرائیل کا شام کے علاقہ پر قبضہ اور تفرقہ بازی: اللہ تعالیٰ نے ملک مصر اور شام میں ان کو غلبہ دیا تھا۔ یہ دونوں ملک سرسبز و شاداب، غلے بکثرت پیدا ہوتے ہیں اس کے علاوہ انھیں تورات بھی عطا کی تھی۔ لیکن زندگی کے ہر شعبہ میں مکمل ہدایات ہونے کے باوجود یہ لوگ کئی فرقوں میں بٹ گئے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ تورات ان کی صحیح رہنمائی کرنے کے کافی نہیں تھی بلکہ ہ تو ان کا تکبر اور ہٹ دھرمی تھی۔ آج مسلمان بھی اسی فرقہ بازی کی لعنت کا شکار ہیں آج بھی اللہ کی کتاب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت موجود ہے۔ اور اگر ان کی طرف رجوع کر لیا جائے تو اتحاد ممکن ہے۔ ورنہ قیامت کے دن تو اللہ تعالیٰ ان اختلافات کرنے والوں کا فیصلہ کردے گا۔