آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ وَكُنتَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ
(ہم نے کہا) ہاں اب تو ایمان لایا، حالانکہ پہلے برابر نافرمانی کرتا رہا اور تو دنیا کے مفسد انسانوں میں سے ایک (بڑا ہی) مفسد تھا۔
غرقابی کے وقت فرعون کا ایمان لانا: اللہ تعالیٰ کو جواب دیا کہ اب ایمان لانے کا کوئی فائدہ نہیں، کیونکہ جب ایمان لانے کا وقت تھا تو نافرمانیاں کرتا رہا، ملک میں فساد مچاتا رہا، خود گمراہ ہو کر دوسروں کو بھی راہ حق سے روکتا رہا۔ لوگوں کو جہنم کی طرف بلانے کا امام بنا ہوا تھا، قیامت کے دن بے یارومددگار رہے گا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اس واقعہ کی خبر دیتے وقت جبرائیل علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا، کاش آپ اس وقت ہوتے اور دیکھے کہ میں اس کے منہ پر کیچڑ ٹھونس رہا ہوں اس خیال سے کہ کہیں اس کی بات پوری ہونے پر اللہ کی رحمت اس کی دست گیری نہ کرے۔‘‘ (ترمذی: ۳۱۰۷) اللہ تعالیٰ نے تین امور کا معین وقت کسی کو نہیں بتلایا۔ (۱) کسی قوم پر عذاب کب آئے گا۔ (۲) کسی کی موت کب واقع ہوگی، ۳۔ قیامت کب آئے گی۔ کیونکہ ان امور کا معین وقت بتلا دیا جائے تو دنیا کے دارالامتحان ہونے کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔ اور فرعون میں تو دو باتیں اکٹھی ہو گئی تھیں ایک عذاب اور دوسری موت لہٰذا اس وقت اس کا ایمان کیسے قبول ہو سکتا تھا۔