سورة البقرة - آیت 138

صِبْغَةَ اللَّهِ ۖ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ صِبْغَةً ۖ وَنَحْنُ لَهُ عَابِدُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(ہدایت اور نجات کی راہ کسی رسمی اصطباغ یعنی رنگ دینے کی محتاج نہیں جیسا کہ عیسائیوں کا شیوہ ہے) یہ اللہ کا رنگ دینا ہے اور بتلاؤ اللہ سے بہتر اور کس کا رنگ دینا ہوسکتا ہے؟ اور ہم اسی کی بندگی کرنے والے ہیں

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

اللہ کے رنگ سے مراد اللہ کی بندگی کا طریقہ ہے یہودی قوم میں جب کوئی شخص یہودی مذہب میں داخل ہوتا تو وہ اُسے غسل دیتے اور کہتے کہ اس کے سابقہ گناہ دھل گئے ہیں اور اس نے زندگی کا نیا رنگ اختیار کرلیا ہے یہی چیز بعد میں عیسائیوں نے اختیار كر لی۔ عیسائی اس غسل کے پانی میں زرد رنگ ملا لیا کرتے اور یہ غسل صرف مذہب میں نئے داخل ہونے والوں کو ہی نہیں بلکہ نومولود بچوں کو بھی دیا جاتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان رسمی رنگوں میں کیا رکھا ہے ۔ رنگ تو صرف اللہ کا ہے جو اس کی بندگی سے چڑھتا ہے اللہ کا رنگ اللہ کا پیغام ہے۔ جو اس نے دیا ہے اور جس کو ساری دنیا تک پہنچانا ہے۔ انشاء اللہ