وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ نُوحٍ إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ إِن كَانَ كَبُرَ عَلَيْكُم مَّقَامِي وَتَذْكِيرِي بِآيَاتِ اللَّهِ فَعَلَى اللَّهِ تَوَكَّلْتُ فَأَجْمِعُوا أَمْرَكُمْ وَشُرَكَاءَكُمْ ثُمَّ لَا يَكُنْ أَمْرُكُمْ عَلَيْكُمْ غُمَّةً ثُمَّ اقْضُوا إِلَيَّ وَلَا تُنظِرُونِ
اور (اے پیغمبر) انہیں نوح کا حال سناؤ، جب ایسا ہوا تھا کہ اس نے اپنی قوم سے کہا تھا اے میری قوم اگر تم پر یہ بات شاق گزرتی ہے کہ میں تم میں (دعوت و ہدایت کے لیے) کھڑا ہوں اور اللہ کی نشانیوں کے ساتھ پند و نصیحت کرتا ہوں تو میرا بھروسہ صرف اللہ پر ہے، تم میرے خلاف جو کچھ کرنا چاہتے ہو اسے ٹھان لو اور اپنے شریکوں کو بھی ساتھ لے لو، پھر جو کچھ تمہارا منصوب ہو اسے اچھی طرح سمجھ بوجھ لو کہ کوئی پہلو نظر سے رہ نہ جائے پھر جو کچھ میرے خلاف کرنا ہے کر گزرو اور مجھے ذرا بھی مہلت نہ دو (اور دیکھو آخر کار کیا نتیجہ نکلتا ہے؟)
حضرت نوح علیہ السلام کا اپنی قوم کو چیلنج: مشرکوں کے پاس اپنے مذہب کی صداقت کے لیے سب سے موثر ہتھیار یہ ہوتا ہے کہ اگر تم لوگوں نے ان کے معبودوں یا اولیاء اللہ کی شان میں کوئی گستاخی یا توہین کی تو وہ تمھیں تباہ و برباد کر کے رکھ دیں گے، اور ان کا یہ عقیدہ نوح علیہ السلام سے لے کر آج تک چلا آ رہا ہے۔ آج بھی اولیائے کرام کا کوئی تذکرہ اٹھا کر دیکھ لیجیے آپ کو ایسی تہدید اور دھمکیاں مل جائیں گی کہ فلاں بزرگ کی فلاں شخص نے یوں توہین کی اس کا ستیاناس ہو گیا یہی بات نوح علیہ السلام کو بھی کہی گئی تو حضرت نوح علیہ السلام نے انھیں صاف فرما دیا کہ اگر تم پر گراں گزرتا ہے کہ میں تمھیں اللہ کی باتیں سنا رہا ہوں۔ تم اس سے چڑتے ہو اور مجھے نقصان پہنچانے کے درپے ہو تو سنو مجھے تمھاری کوئی پرواہ نہیں، میں تم سے مطلقاً نہیں ڈرتا تم سے جو ہو سکے کر لو۔ اپنے ساتھ اپنے شریکوں اور اپنے جھوٹے معبودوں کو بھی بلا لو۔ اور مل جل کر، مشورے کرکے، بات کھول کر پوری قوت کے ساتھ مجھ پر حملہ کرو۔ تمھیں قسم ہے جو میرا بگاڑ سکتے ہو اس میں کوئی کسر نہ رکھو۔ مجھے بالکل مہلت نہ دو۔ اچانک گھیر لو۔ میں حق پر ہوں اور حق کا ساتھی اللہ ہوتاہے۔ مجھے اس کی عظیم الشان ذات پر بھروسہ ہے۔ مجھے اس کی قدرت اور بڑائی معلوم ہے۔