سورة یونس - آیت 60

وَمَا ظَنُّ الَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَشْكُرُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور جن لوگوں کی جراتوں کا یہ حال ہے کہ اللہ کے نام پر جھوٹ بول کر افترا پردازی کر رہے ہیں انہوں نے روز قیامت کو کیا سمجھ رکھا ہے (کیا وہ سمجھتے ہیں اللہ کی جانب سے کوئی پرسش ہونے والی نہیں؟) حقیقت یہ ہے کہ اللہ انسانوں کے لیے بڑا ہی فضل رکھا ہے (کہ اس نے جزائے عمل کو آخرت پر اٹھا رکھ ہے اور دنیا میں سب کو مہلت عمل دے دی ہے) لیکن ان میں زیادہ تر ایسے ہیں جو اس کا شکر نہیں بجا لاتے۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ کیا یہ جانتے ہیں کہ قیامت کے دن ان سے کیا سلوک کیا جائے گا جس دن یہ بے بس ہو کر ہمارے سامنے حاضر کیے جائیں گے، اللہ تو اپنے بندوں پر فضل و کرم ہی کرتا ہے۔ وہ دنیا میں سزا دینے میں جلدی نہیں کرتا، اس نے دنیا میں بہت سی نفع دینے والی چیزیں حلال کر دی ہیں۔ صرف انھی چیزوں کو حرام فرمایا ہے جو انسان کو نقصان پہنچانے والی اور ان کے حق میں دنیوی طور پر یا اُخروی طور پر مضر ہیں۔ لیکن اکثر لوگ ناشکری کرکے اللہ کی نعمتوں سے محروم رہ جاتے ہیں، اپنی جانوں کو خود تنگی میں ڈالتے ہیں۔ مشرکین از خود احکام گھڑ لیا کرتے تھے اور انھیں شریعت سمجھ بیٹھتے تھے۔ تفسیر ابن ابی حاتم میں ہے۔ قیامت کے دن اولیاء اللہ کی تین قسمیں کرکے انھیں جناب باری تعالیٰ کے سامنے لایا جائے گا پہلی قسم والوں سے ایک سوال ہوگا کہ تم لوگوں نے یہ نیکیاں کیوں کیں وہ جواب دیں گے کہ پروردگار تو نے جنت بنائی اس میں درخت لگائے، ان درختوں میں پھل پیداکیے، وہاں نہریں جاری کیں، حوریں پیدا کیں اور نعمتیں تیار کیں، پس اسی جنت کے شوق میں ہم راتوں کو بیدار رہے اور دنوں کو بھوک پیاس برداشت کی۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا اچھا تو تمھارے اعمال جنت کے حصول کے لیے تھے میں تمھیں جنت میں جانے کی اجازت دیتا ہوں اور یہ میرا خاص فضل ہے کہ جہنم سے تمھیں نجات دیتا ہوں گو یہ بھی میر ا فضل ہی ہے کہ میں تمھیں جنت میں پہنچاتا ہوں پس یہ اور ان کے ساتھی بہشت بریں میں داخل ہو جائیں گے۔ پھر دوسری قسم کے لوگوں میں سے ایک سے پوچھا جائے گا، کہ تم نے یہ نیکیاں کیسے کیں؟ وہ کہے گا پروردگار تو نے جہنم کو پیدا کیا، اپنے دشمنوں اور نافرمانوں کے لیے وہاں طوق و زنجیر، حرارت، آگ، گرم پانی، اور گرم ہوا کا عذاب رکھا۔ وہاں طرح طرح کے روح فرسا دکھ دینے والے عذاب تیا رکیے۔ بس میں راتوں کو جاگتا رہا دنوں کو بھوکا پیاسا رہا صرف اس جہنم کے ڈر سے، تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں نے تجھے جہنم سے آزاد کیا اور یہ میرا فضل خاص ہے کہ تجھے اپنی رحمت میں لے جاتا ہوں پس یہ اور اس کے ساتھی جب جنت میں چلے جائیں گے، پھر تیسری قسم کے لوگوں میں سے ایک کو لایا جائے گا، اللہ تعالیٰ اس سے دریافت فرمائے گا کہ تو نے یہ نیکیاں کیوں کیں؟ وہ فرمائے گا کہ صرف تیری محبت اور تیرے شوق میں، تیری عزت کی قسم میں راتوں کو عبادت میں جاگتا رہا اور دنوں کو روزے رکھ کر بھوک پیاس سہتا رہا، اللہ تعالیٰ فرمائے گا تو نے یہ اعمال صرف میری محبت اور میرے اشتیاق میں ہی کیے ہیں، لے اب میرا دیدار کرلے۔ اسی وقت اللہ جل جلالہ اسے اور اس کے ساتھیوں کو اپنا دیدار کرائے گا، فرمائے گا دیکھ لے یہ ہوں میں، پھر فرمائے گا یہ میرا خاص فضل ہے۔ کہ میں تجھے جہنم سے بچاتا ہوں اور جنت میں پہنچاتا ہوں۔ میرے فرشتے تیرے پاس پہنچتے رہیں گے اور میں خود بھی تجھ کو سلام کہا کروں گا، پس وہ مع اپنے ساتھیوں کے جنت میں چلا جائے گا۔