وَلَوْ أَنَّ لِكُلِّ نَفْسٍ ظَلَمَتْ مَا فِي الْأَرْضِ لَافْتَدَتْ بِهِ ۗ وَأَسَرُّوا النَّدَامَةَ لَمَّا رَأَوُا الْعَذَابَ ۖ وَقُضِيَ بَيْنَهُم بِالْقِسْطِ ۚ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ
اور (آنے والا عذاب اس درجہ ہولناک ہے اور اس کا وقوع اس درجہ قطعی ہے کہ) اگر ہر ظالم انسان کے قبضہ میں وہ سب کچھ آجائے جو روئے زمین میں ہے تو وہ ضرور اسے اپنے فدیہ میں دے دے، اور دیکھو جب انہوں نے عذاب اپنے سامنے دیکھا تو (اپنی سرکشی و انکار یاد کر رکے) دل ہی دل میں پچھتانے لگے پھر ان کے درمیان (یعنی مومنوں اور سرکشوں کے درمیان) انصاف کے ساتھ فیصلہ کردیا گیا اور ایسا کبھی نہ ہوگا کہ ان پر کسی طرح کی زیادتی واقع ہو۔
آخرت میں صرف وہ اعمال صالحہ کام آئیں گے جو کسی نے اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لاتے ہوئے اپنے لیے آگے بھیجے ہوں گے، اعمال کے سوا دولت، قرابت داری اور سفارش وغیرہ کچھ کام نہ آئے گی، اول تو وہاں کسی کے پاس ہوگا ہی کیا اور اگر بغرض تسلیم ہے کہ اگر کسی مجرم کے پاس دنیا بھر کے خزانے او رمال و دولت دے دلا کر اپنے آپ کو عزت سے چھڑا لے تویہ ممکن نہ ہوگا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن اللہ کم سے کم عذاب والے دوزخی سے فرمائیں گے کہ اگر تیرے پاس دنیا و مافیہا کی دولت موجود ہو تو کیا فدیہ میں دے دو گے؟ وہ کہے گا ہاں اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں نے تو تجھ سے دنیا میں اس سے آسان تر بات طلب کی تھی اور کہا تھا کہ (توحید پر) قائم رہے گا تو میں تجھے جہنم میں داخل نہ کروں گا مگر تو شرک پر اڑا رہا۔ (مسلم:۲۸۰۵)