قُل لَّا أَمْلِكُ لِنَفْسِي ضَرًّا وَلَا نَفْعًا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ ۗ لِكُلِّ أُمَّةٍ أَجَلٌ ۚ إِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ فَلَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً ۖ وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ
(اے پیغمبر) تم کہہ دو (یہ معاملہ کچھ میرے اختیار میں نہیں کہ بتلا دوں کب واقع ہوگا) میں تو خود اپنی جان کا بھی نفع نقصان اپنے قبضہ میں نہیں رکھتا۔ وہی ہوتا ہے جو اللہ نے چاہا ہے، ہر امت کے لیے (پاداش عمل کا) ایک مقررہ وقت ہے اور جب وہ وقت آ پہنچتا ہے تو پھر نہ تو ایک گھڑی پیچھے رہ سکتے ہیں نہ ایک گھڑی آگے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو ہدایت دی کہ انھیں جواب دیں کہ میرے اختیار میں تو کوئی بات نہیں میں تو اپنے نفع ونقصان کا بھی مالک نہیں میں تو اللہ کا غلام اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہوں، مجھے جو بات بتلا دی جائے میں تو وہی جانتا ہوں۔ اُس نے مجھ فرمایا ہے کہ قیامت ضرور آئے گی نہ اس نے مجھے اس کا خاص وقت بتایا ہے نہ میں تمھیں بتا سکتا ہوں۔ سارا اختیار اللہ کے پاس ہے وہ اپنی مشیت کے مطابق ہی کسی کو نفع یا نقصان پہنچانے کا فیصلہ کرتا ہے۔ البتہ اللہ نے ہر اُمت کے لیے ایک وقت مقرر کیا ہوا ہے۔ اس وقت تک وہ مہلت دیتا ہے لیکن جب وہ وقت آجاتا ہے تو پھر وہ ایک گھڑی پیچھے ہو سکتا ہے نہ آگے سرک سکتا ہے۔ تنبیہ: یہاں یہ بات نہایت اہم ہے کہ جب افضل الخلائق سید الرسل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک کسی کو نفع یا نقصان پہنچانے پر قادر نہیں تو آپ کے بعد انسانوں میں کون سی ایسی ہستی ہو سکتی ہے جو کسی کی حاجت براری اور مشکل کشائی پر قادر ہو؟ اسی طرح خود اللہ نے پیغمبر سے مدد مانگنا، ان سے فریاد کرنا’’یارسول اللہ مدد‘‘ اور ’’ اَغِثْنِیْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ‘‘ وغیرہ الفاظ سے استعانت کرنا کسی طرح بھی جائز نہیں کیونکہ یہ قرآن کی اس آیت اور دیگر واضح تعلیمات کے خلاف ہے۔ بلکہ یہ شرک کی ذیل میں آتا ہے۔ العیاذ باللہ۔ (تیسیر القرآن)