هُنَالِكَ تَبْلُو كُلُّ نَفْسٍ مَّا أَسْلَفَتْ ۚ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلَاهُمُ الْحَقِّ ۖ وَضَلَّ عَنْهُم مَّا كَانُوا يَفْتَرُونَ
پس اس دن ہر آدمی جانچ لے گا کہ جو کچھ وہ پہلے کرچکا ہے اس کی حقیقت کیا تھی، سب اللہ کے حضور کہ ان کا مالک حقیقی ہے لوٹائے جائیں گے اور حقیقت کے خلاف جس قدر افترا پردازیاں کرتے رہے ہیں سب ان سے کھوئی جائیں گی۔
مشرک کچھ عقائد کی بنا پر اپنے معبودوں کی پرستش کرتے تھے۔ جو یہ ہیں: (۱) یہ ہمارے حاجت روا اور مشکل کشا ہیں (۲) ہماری فریاد کو سنتے ہیں (۳) ہمارے اور اللہ کے درمیان واسطہ کا کام دیتے ہیں۔ (۴) اللہ سے قریب کرنے کا ذریعہ ہیں (۵) ہمارے سفارشی ہوں گے اور اخروی عذاب سے ہمیں بچا لیں گے حتیٰ کے بعض لوگوں کا یہ عقیدہ ہے کہ فلاں پیر کی بیعت ہو جانا ہی اخروی عذاب سے نجات کی ضمانت ہے۔ قیامت کے دن حقیقت حال مشرکوں کے سامنے آجائے گی، وہاں ہر شخص اپنے اعمال دیکھ لے گا، نامہ اعمال کھلے ہوں گے، ترازو قائم ہوگی، تب ایسی باتیں بھول جائیں گی اور انھیں خود بھی یاد نہ رہے گا کہ وہ کیوں ان معبودوں کی عبادت کرتے رہے تھے۔ ارشاد نبوی ہے: ہر اُمت کو حکم ہوگا کہ اپنے اپنے معبودوں کے پیچھے چل کھڑی ہو جائے، سورج پرست سب سورج کے پیچھے ہوں گے، چاند پرست چاند کے پیچھے، بت پرست بتوں کے پیچھے۔ (بخاری: ۷۴۳۷) سارے کے سارے خدائے بزرگ و برتر کی طرف لوٹائے جائیں گے، تمام کاموں کے فیصلے اس کے ہاتھ ہوں گے اپنے فضل سے نیکوں کو جنت میں اور ایسے عدل سے بروں کو جہنم میں لے جائے گا۔ مشرکوں کی ساری افترا پردازیاں رکھی کی رکھی رہ جائیں گی۔ سب کے بھرم کھل جائیں گے اور سب پردے اُٹھ جائیں گے۔