سورة یونس - آیت 21

وَإِذَا أَذَقْنَا النَّاسَ رَحْمَةً مِّن بَعْدِ ضَرَّاءَ مَسَّتْهُمْ إِذَا لَهُم مَّكْرٌ فِي آيَاتِنَا ۚ قُلِ اللَّهُ أَسْرَعُ مَكْرًا ۚ إِنَّ رُسُلَنَا يَكْتُبُونَ مَا تَمْكُرُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور جب ایسا ہوتا ہے کہ ہم لوگوں کو درد دکھ کے بعد اپنی رحمت کا مزہ چکھا دیتے ہیں تو فورا ہماری (رحمت کی) نشانیوں میں باریک باریک حیلے نکالنا شروع کردیتے ہیں۔ (اے پیغمبر) تم کہہ دو اللہ ان باریکیوں میں سب سے زیادہ تیز ہے، اس کے فرشتے تمہاری یہ ساری مکاریاں قلمبند کر رہے ہیں۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

اس آیت میں انسانی ناشکری کا بیان ہو رہا ہے کہ سختی کے بعد کی آسانی خشک سالی کے بعد بارش اور قحط کے بعد رزق کی فراوانی انھیں اور بھی ناشکرا کر دیتی ہے۔یہ اس وقت کا ذکر ہے جب مکہ پر قحط مسلسل سات سال تک مسلط رہا۔ اور ابوسفیان نے آکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قحط کے عذاب سے نجات کے لیے دعا کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو صلہ رحمی کا سبق دیتے ہیں جبکہ ہم بھوکوں مر رہے ہیں اگر یہ عذاب دور ہو گیا تو ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئیں گے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دُعا فرمائی تو بارشیں شروع ہونے لگیں اور قحط دور ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ کیا یہ نشانی تمھارے لیے کافی نہیں کہ تم اب کسی اور معجزے کے مطالبہ کرنے لگے ہو۔تمھارے معبودوں نے تو تمھاری کوئی مدد نہ کی۔ پھر جب اللہ نے تمھاری مصیبت دور کر دی تو پھر اپنے وعدوں سے فرار کی راہ سوچنے لگے اور ایسے مکر کرنے اور بہانے بنانے شروع کر دیے جن سے اپنے قدیم شرک پر جمے ہو۔ تمھاری ان چالوں کا وبال تم پر ہی پڑے گا میرے امین فرشتے تمھارے کرتوت لکھتے جاتے ہیں اور پھر سامنے پیش کریں گے۔ میں خود دانا و بینا ہوں، تاہم وہ تحریر میرے سامنے ہوگی جس میں ان کے چھوٹے بڑے، بھلے بُرے سب اعمال ہوں گے۔ موت کے وقت صرف اللہ کو پکارنا: جب انسان پر کوئی کڑا وقت آتا ہے اور سب اسباب و سہارے منقطع ہوتے نظر آنے لگتے ہیں پھر اُس وقت انسان خالصتاً اللہ کو پکارنے لگتا ہے۔ اور جب وہ سختی کا وقت گزر جاتا ہے تو اللہ کو بھول جاتا ہے اور اس کی نظر پھر اسباب کر جمنے لگتی ہے وہ اس بات سے نہیں ڈرتا کہ کہیں پھر اللہ ایسی مصیبت نہ کھڑی کر دے کیونکہ اسباب کی باگ ڈور بھی اسی کے ہاتھ میں ہے۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ رات کو بارش ہوئی صبح کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی پوچھا، جانتے ہو رات کو باری تعالیٰ نے کیا فرمایا ہے صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا ہمیں کیا خبر؟آپ نے فرمایا اللہ کا ارشاد ہوا ہے کہ صبح کو میرے بہت سے بندے ایماندار ہو جائیں گے اور بہت سے کافر۔ کچھ کہیں گے کہ اللہ کے فضل و کرم اور اس کے لطف و رحم سے بارش ہوئی وہ مجھ پر ایمان رکھنے والے بن جائیں گے اور ستاروں کی ایسی تاثیروں کے منکر ہو جائیں گے اور کچھ کہیں گے کہ فلاں فلاں ستارے کی وجہ سے بارش برسائی گئی وہ مجھ سے کافر ہو جائیں گے اور ستاروں پر ایمان رکھنے والے ہو جائیں گے۔ (بخاری: ۷۱)