وَمَا كَانَ النَّاسُ إِلَّا أُمَّةً وَاحِدَةً فَاخْتَلَفُوا ۚ وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِن رَّبِّكَ لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ فِيمَا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ
اور (ابتدا میں) انسانوں کی ایک ہی امت تھی، پھر الگ الگ ہوگئے، اور اگر تمہارے پروردگار کی جانب سے پہلے ایک بات نہ ٹھہرا دی گئی ہوتی (یعنی لوگ الگ الگ راہوں میں چلیں گے اور اسی اختلاف میں ان کے لیے آزمائش عمل ہوگی) تو جن باتوں میں لوگ اختلاف کرر ہے ہیں ان کا فیصلہ کبھی کا ہوچکا ہوتا۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ سنو پہلے سب ہی لوگ مسلمان تھے یعنی حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت نوح علیہ السلام تک دس صدیاں لوگ مسلمان تھے۔ پھر اختلاف رو نما ہوا پھر لوگوں نے غیر خدا کی پرستش شروع کر دی۔ اللہ تعالیٰ نے رسولوں کا سلسلہ جاری کیا تاکہ ثبوت و دلیل کے بعد جس کا جی چاہے فرمانبرداری کرے اور جس کا جی چاہے نافرمانی کرے۔ چونکہ اللہ کی طرف سے فیصلے کا دن مقرر ہے۔ اور حجت تمام کرنے سے پہلے عذاب نہیں ہوتا اس لیے موت کا وقت مقرر ہے۔ ورنہ ابھی حساب چکا دیا جاتا۔ مومنوں کو سعادت مند اور کافروں کو عذاب و حشت میں مبتلا کر چکا ہوتا۔ (ابن کثیر)