وَإِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا بَيِّنَاتٍ ۙ قَالَ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا ائْتِ بِقُرْآنٍ غَيْرِ هَٰذَا أَوْ بَدِّلْهُ ۚ قُلْ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أُبَدِّلَهُ مِن تِلْقَاءِ نَفْسِي ۖ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ ۖ إِنِّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ
اور (اے پیغمبر) جب تم ہماری واضح آیتیں انہیں پڑھ کر سناتے ہو تو جو لوگ (مرنے کے بعد) ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے، وہ کہتے ہیں اس قرآن کے سوا کوئی دوسرا قرآن لاکر سناؤ، یا اسی (کے مطالب) میں رد و بدل کردو، تم کہو میرا یہ مقدور نہیں کہ اپنے جی سے اس میں ردو بدل کردوں، میں تو بس اسی حکم کا تابع ہوں جو مجھ پر وحی کیا جاتا ہے۔ میں ڈرتا ہوں اگر اپنے پروردگار کے حکم سے سرتابی کروں تو عذاب کا ایک بہت بڑا دن آنے والا ہے۔
کفار مکہ اپنے آپ کو ملتِ ابراہیمی کا پیروکار سمجھتے تھے وہ اللہ کی ربوبیت کے تو پوری طرح قائل تھے مگر الوہیت کی صفات میں اپنے مختلف دیوی دیوتاؤں کو بھی رب تعالیٰ کا شریک کر لیا تھا جبکہ عقیدہ آخرت کے سخت منکر تھے، اور وہ یہ سمجھتے تھے کہ یہ قرآن اللہ کی طرف سے نازل کردہ نہیں ہے۔ اور اسی زعم باطل کو بنیادی بنا کر انھوں نے دو مطالبات پیش کر دیے۔(۱) اس قرآن کے بجائے کوئی ایسا قرآن لاؤ جو ہمارے لیے بھی قابل قبول ہو۔ (۲) اس میں کچھ رد و بدل کر دو تاکہ ہمارے اور تمھارے دمیان صلح اور سمجھوتہ کی راہ ہموار ہو سکے، اور یہی وہ نظریہ ہے جسے آج کل بھی مختلف مذاہب کے درمیان صلح و آشتی کی بنیاد قرار دیا جا رہا ہے ’’یعنی اپنے مذہب کو چھوڑو نہ اور دوسروں کے مذہب کو چھیڑو نہ‘‘ اس کے متعلق اقبال نے کہا ہے: باطل دوئی پرست ہے حق لاشریک شرکت میانہ حق و باطل نہ کر قبول آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا کہ میرے اختیار سے باہر ہے کہ میں کوئی اور قرآن لاؤں یا اس میں کوئی رد و بدل کروں میں تو وحی کی پیروی کا پابند ہوں۔ اور اگر میں کوئی ایسا کام کر گزروں تو پھر مجھ سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا۔ میں تو عذاب اُخروی کے تصور سے ہی کانپ اٹھتا ہوں۔