وَلَقَدْ أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ مِن قَبْلِكُمْ لَمَّا ظَلَمُوا ۙ وَجَاءَتْهُمْ رُسُلُهُم بِالْبَيِّنَاتِ وَمَا كَانُوا لِيُؤْمِنُوا ۚ كَذَٰلِكَ نَجْزِي الْقَوْمَ الْمُجْرِمِينَ
اور تم سے پہلے کتنی ہی امتیں گزر چکی ہیں جب انہوں نے ظلم کی راہ اختیار کی تو ہم نے انہیں (پاداش عمل میں) ہلاک کردیا، ان کے رسول ان کے پاس روشن دلیلوں کے ساتھ آئے تھے مگر اس پر بھی وہ آمادہ نہ ہوئے کہ ایمان لائیں (تو دیکھو) مجرموں کو اسی طرح ہم ان کے جرموں کا بدلہ دیتے ہیں۔
یہاں کفار مکہ کو تنبیہ کی جا رہی ہے کہ جس طرح گزشتہ اُمتوں کو ہلاک کیا تم بھی اس سے دو چار ہو سکتے ہو، جو اپنے اپنے دور میں عروج پر تھیں اور اقوام عالم میں نامور شمار ہوئی تھیں ہلاک کرنے سے مراد یہی نہیں کہ ان پر کوئی ارضی و سماوی عذاب بھیج کر ان کی نسل کو تباہ و برباد کر ڈالا بلکہ ایک صورت یہ بھی ہوتی ہے کہ جتنا اس قوم نے عروج حاصل کیا ہوتا ہے اتنا ہی وہ زوال پذیر ہو جائے حتیٰ کہ اتنی قعر ذلت میں جا گرے کہ اقوام عالم میں شمار کے قابل ہی نہ رہے۔ ظلم کی روش اختیار کی: ظلم کا مفہوم بے حد وسیع ہے اس کا اطلاق ہر گناہ اور زیادتی کے کام پر ہو سکتا ہے۔ سب سے بڑا گناہ ظلم کو شرک عظیم کہا گیا ہے۔ اس آیت میں بتلایا گیا ہے کہ جب کوئی قوم سر نکالتی یا عروج حاصل کرتی ہے تو یہی وقت اس کے ظلم و زیادتی کا ہوتا ہے۔ لوگوں کو اپنے سے کمتر سمجھنا۔ جائز و ناجائز طریقے سے تسلط جمانا، اللہ کی یادسے غافل ہو کر گناہ کے کام کرنا، ایسے ہی اوقات میں اللہ تعالیٰ ان کے پاس اپنے رسول بھیجتا ہے۔ مگر جو لوگ عیش و عشرت اور گناہ کے کاموں میں مستغرق ہوں وہ بھلا رسولوں کی بات کب مانتے ہیں اور ان کا انکار ہی کرتے ہیں۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کی طرف سے حجت پوری ہو جاتی ہے اور وہ اپنا طرز زندگی نہیں بدلتے تو ان کے جرم کی پاداش میں اللہ تعالیٰ انھیں ہلاک کر ڈالتا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں دنیامیٹھی، مزے کی، سبز رنگ والی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس میں تمھیں خلیفہ بنا کر دیکھ رہا ہے کہ تم کیسے اعمال کرتے ہو؟ دنیاسے ہوشیار رہو اور عورتوں سے ہوشیار رہو بنی اسرائیل میں سب سے پہلا فتنہ عورتوں ہی کا آیا تھا۔ (مسلم: ۲۷۴۲)