وَإِذَا مَسَّ الْإِنسَانَ الضُّرُّ دَعَانَا لِجَنبِهِ أَوْ قَاعِدًا أَوْ قَائِمًا فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُ ضُرَّهُ مَرَّ كَأَن لَّمْ يَدْعُنَا إِلَىٰ ضُرٍّ مَّسَّهُ ۚ كَذَٰلِكَ زُيِّنَ لِلْمُسْرِفِينَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ
اور جب کبھی انسان کو کوئی رنج پہنچتا ہے تو خواہ کسی حال میں ہو، کروٹ پر لیٹا ہو، بیٹھا ہو، کھڑا ہو ہمیں پکارنے لگے گا، لیکن جب ہم اس کا رنج دور کردیتے ہیں تو پھر اس طرح (منہ موڑے ہوئے) چل دیتا ہے گویا رنج و مصیبت میں کبھی اس نے ہمیں کبھی پکارا ہی نہیں تھا، تو دیکھو ! جو حد سے گزر گئے ہیں ان کی نگاہوں میں اسی طرح ان کے کام خوش نما کردئے گئے ہیں۔
یہ انسان کی اس حالت کا تذکرہ ہے کہ جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو لمبی لمبی دعائیں کرنے لگتا ہے اور ہر وقت اٹھتے، بیٹھتے، لیٹے ہر وقت اللہ سے اپنی تکلیف کے دور ہونے کی التجائیں کرتا ہے۔ توبہ و استغفار کرتا ہے۔ لیکن جب اللہ مصیبت کا کڑا وقت نکال دیتا ہے۔ تو ایسے ہو جاتا ہے جیسے اسے کبھی تکلیف پہنچی ہی نہ تھی اور نہ کبھی اس نے دعا ہی کی تھی، ایسے لوگ حد سے گزر جانے والے ہیں۔ اور انھیں اپنے ایسے عمل ہی اچھے لگتے ہیں جیسا کہ قریش مکہ نے بھی یہی کچھ کیا تھا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے قحط دور ہو گیا تو ان لوگوں کی وہی سرکشیاں، بد اعمالیاں، اپنے معبودوں سے لگاؤ اور دین برحق کے خلاف پہلی سی سرگرمیاں شروع ہو گئیں اور مصیبت کے وقت جو دل اللہ کی طرف رجوع کرنے لگے تھے۔ پھر اپنی سابقہ روش اور غفلتوں میں ڈوب گئے اور انھی کاموں میں انھیں لطف آنے لگا۔ (تیسیر القران) یہاں معنی یہ ہوئے کہ ان کے لیے دعا سے اعراض شکر الٰہی سے غفلت اور شہوات و خواہشات کے ساتھ اشتغال کو مزین کر دیا گیا ہے۔ (فتح القدیر)