سورة یونس - آیت 11

وَلَوْ يُعَجِّلُ اللَّهُ لِلنَّاسِ الشَّرَّ اسْتِعْجَالَهُم بِالْخَيْرِ لَقُضِيَ إِلَيْهِمْ أَجَلُهُمْ ۖ فَنَذَرُ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور (دیکھو) انسان جس طرح فائدہ کے لیے جلد باز ہوتا ہے اگر اسی طرح اللہ اسے نقصان پہنچانے میں جلد باز ہوتا (یعنی اگر اس کا قانون جزا ایسا ہوتا کہ ہر بدعملی کا برا نتیجہ فورا کام کرجائے) تو اس کا وقت کبھی کا پورا ہوچکا ہوتا (لیکن قانون جزا نے یہاں ڈھیل دے رکھی ہے) پس جو لوگ (مرنے کے بعد) ہماری ملاقات کی توقع نہیں رکھتے ہم انہیں ان کی سرکشیوں میں سرگرداں چھوڑ دیتے ہیں۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

اللہ کے احسانات: اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میرے الطاف اور میری مہربانیوں کو دیکھو۔ اس کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ جس طرح انسان خیر کے طلب کرنے میں جلدی کرتا ہے۔ اسی طرح وہ شر (یعنی عذاب) کے طلب کرنے میں بھی جلدی مچاتا ہے۔ اللہ کے پیغمبروں سے کہتا ہے کہ اگر تم سچے ہو تو وہ عذاب لے کر آؤ جس سے تم ہمیں ڈراتے ہو، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر ان کے اس مطالبے کے مطابق ہم جلدی عذاب بھیج دیتے تو یہ کبھی کے موت اور ہلاکت سے دو چار ہو چکے ہوتے۔ لیکن ہم مہلت دے کر انھیں پورا موقع دیتے ہیں۔ دوسرے معنی یہ ہیں کہ انسان جس طرح اپنے لیے خیر خواہی اور بھلائی کی دعائیں مانگتا ہے۔ جنھیں ہم قبول کرتے ہیں اسی طرح جب انسان غصے یا تنگی میں ہوتا ہے۔ تو اپنے لیے اور اپنی اولاد وغیرہ کے لیے بد دعائیں کرتا ہے۔ جنھیں ہم اس لیے نظر انداز کر دیتے ہیں کہ یہ زبان سے تو ہلاکت مانگ رہا ہے۔ مگر اس کے دل میں ایسا ارادہ نہیں ہے۔ لیکن اگر ہم انسانوں کی بددعاؤں کے مطابق، انھیں فوراً ہلاکت سے دو چار کرنا شروع کر دیں تو پھر جلد ہی یہ لوگ موت اور تباہی سے ہمکنار ہو جایا کریں اسی لیے حدیث میں آتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’تم اپنے لیے، اپنی اولاد کے لیے اور اپنے مال و کاروبار کے لیے بددعائیں مت کیا کرو۔ کہیں ایسانہ ہو کہ تمھاری بددعائیں اس گھڑی کو پالیں، جس میں اللہ کی طرف سے دعائیں قبول کی جاتی ہیں پس وہ تمھاری بد دعائیں قبول فرمالے۔‘‘ (سنن ابی داؤد: ۱۵۳۲)