وَمَن يَرْغَبُ عَن مِّلَّةِ إِبْرَاهِيمَ إِلَّا مَن سَفِهَ نَفْسَهُ ۚ وَلَقَدِ اصْطَفَيْنَاهُ فِي الدُّنْيَا ۖ وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ
(یہ ہے ابراہیم کا طریقہ) اور ان لوگوں کے سوا جنہوں نے اپنے آپ کو نادانی و جہالت کے حوالے کردیا ہے کون ہے جو ابراہیم کے طریقے سے منہ پھیر سکتا ہے؟ اور واقعہ یہ ہے کہ ہم نے دنیا میں بھی اسے برگزیدگی کے لیے چن لیا اور آخرت میں بھی اس کی جگہ نیک انسانوں کے زمرے میں ہوگی
دین کا مطلب اللہ تعالیٰ کی مکمل حاکمیت اور اپنی مکمل عبودیت کو تسلیم کرلینا ہے۔ حضرت ابراہیم نے اپنے طرز عمل و فکر کو مکمل طور پر اللہ کی م رضی کے تابع بنالیا تھا اور (۱) آپ آزمائشوں پر پورا اترنے والے۔ (۲) سب لوگوں کے پیشوا امام۔ (۳) اللہ تعالیٰ کے گھر کو پاک صاف رکھنے والے۔ (۴) اللہ تعالیٰ سے اپنی ذات۔ اولاد اور اپنی قوم كے لیے دنیا و آخرت کی بھلائیوں کی دعائیں کرنے والے۔ (۵) اللہ تعالیٰ کا گھر بنانے والے یکسو اور حنیف ۔ (۶) صالح مسلم۔ (۷) اپنی اولاد کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی نصیحت کرنے والے۔ (۸) اللہ تعالیٰ کے آگے جھکنے والے تھے کبھی رخ کسی اور طرف نہیں ہوا تھا۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے والے تھے۔ (۹) وہ شرک کرنے والوں میں سے نہیں تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں منتخب کرلیا برگزیدہ کیاآپ جہاں نماز کے لیے کھڑے ہوتے تھے اُسے مستقل جائے نماز بنانے کا حکم ہوا۔ اب کوئی بے وقوف شخص ہی ایسی پسندیدہ روش سے منہ موڑ سکتا ہے۔