وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنفِرُوا كَافَّةً ۚ فَلَوْلَا نَفَرَ مِن كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَائِفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ
اور (دیکھو) یہ ممکن نہ تھا کہ سب کے سب مسلمان (اپنے گھروں سے) نکل کھڑے ہوں (اور تعلیم دین کے مرکز میں آ کر علم و تربیت حاصل کریں) پس کیوں نہ ایسا کیا گیا کہ ان کے ہر گروہ میں سے ایک جماعت نکل آئی ہوتی کہ دین میں دانش و فہم پیدا کرتی اور جب (تعلیم و تربیت کے بعد) اپنے گھروں میں واپس جاتی تو لوگوں کو (جہل و غفلت کے نتائج سے) ہوشیار کرتی تاکہ (برائیوں سے) بچیں؟
دین کا علم سیکھنا فرض کفایہ ہے: بعض مفسرین کے نزدیک اس آیت کا تعلق بھی حکم جہاد سے ہے۔ اور مطلب یہ ہے کہ جب پیچھے رہنے والوں کے لیے سخت وعید اور تنبیہ بیان کی گئی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بڑے محتاط ہوگئے اور جب بھی جہاد کا مرحلہ آتا تو سب کے سب اس میں شریک ہونے کی کوشش کرتے۔ چنانچہ اس آیت میں انھیں یہ حکم دیا گیا ہے کہ ہر جہاد اس نوعیت کا نہیں ہوتا کہ جس میں ہر شخص کی شرکت ضروری ہو (جیسا کہ تبوک میں ضروری تھا) بلکہ ایک گروہ کی شرکت ہی کافی ہے۔ یعنی ایک گروہ جہاد پر چلا جائے اور ایک گروہ پیچھے رہے جو دین کا علم حاصل کرے اور جب مجاہدین واپس آئیں تو انھیں بھی احکام دین سے آگاہ کرکے انھیں ڈرائیں، دوسری تفسیر یہ ہے کہ اسکا تعلق جہاد سے نہیں بلکہ اس آیت میں علم دین سیکھنے کی اہمیت کا بیان اسکی ترغیب اور طریقے کی وضاحت ہے اور وہ یہ کہ ہر بڑی جماعت یا قبیلے میں سے کچھ لوگ دین کا علم حاصل کرنے کے لیے اپنا گھر بار چھوڑیں اور مدارس اور مراکز میں جاکر اسے حاصل کریں اور پھر آکر اپنی قوم میں وعظ و نصیحت کریں۔ دین میں تفقہ حاصل کرنے کا مطلب اور امرونواہی کا علم حاصل کرنا ہے تاکہ اوامر الٰہی کو بجالاسکے اور نواہی سے دامن بچا رکھے اور اپنی قوم کے اندر بھی امرباالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دے۔