لَا يَزَالُ بُنْيَانُهُمُ الَّذِي بَنَوْا رِيبَةً فِي قُلُوبِهِمْ إِلَّا أَن تَقَطَّعَ قُلُوبُهُمْ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
یہ عمارت جو انہوں نے بنائی ہے (یعنی مسجد ضرار) ہمیشہ ان کے دلوں کو شک و شبہ سے مضطرب رکھے گی۔ (یہ کانٹا نکلنے والا نہیں) مگر یہ کہ ان کے دلوں کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے جائیں (کیونکہ یہ ان کے نفاق کی ایک بہت بڑی شرارت تھی جو چلی نہیں اس لیے ہمیشہ اس کی وجہ سے خوف و ہراس کی حالت میں رہیں گے) اور اللہ سب کا حال جاننے والا (اپنے تمام کاموں میں) حکمت رکھنے والا ہے۔
دل پاش پاش ہوجائیں: سے مراد موت سے ہمکنار ہونا ہے اگرچہ یہ عمارت گرائی جاچکی ہے۔ مگر موت تک یہ ان کے دلوں میں شک و نفاق پیدا کرنے کا ذریعہ بنی رہے گی۔ جس طرح کے بچھڑے کے پجاریوں میں بچھڑے کی محبت رچ بس گئی تھی۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے اعمال سے خبردار ہے۔ اور خیر و شر کا بدلہ دینے میں با حکمت ہے۔