سورة التوبہ - آیت 106

وَآخَرُونَ مُرْجَوْنَ لِأَمْرِ اللَّهِ إِمَّا يُعَذِّبُهُمْ وَإِمَّا يَتُوبُ عَلَيْهِمْ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور (پچھلے تائب گروہ کے علاوہ) کچھ اور لوگ ہیں، جن کا معاملہ اس انتظار میں کہ اللہ کا حکم کیا ہوتا ہے، ملتوی ہوگیا ہے۔ وہ انہیں عذاب دے یا (اپنی رحمت سے) ان پر لوٹ آئے (اسی کے ہاتھ ہے) اور اللہ (سب کچھ) جاننے والا (اپنے تمام کاموں میں) حکمت رکھنے والا ہے۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

معذرت کرنے والوں کی قسمیں: غزوہ تبوک میں پیچھے رہ جانے والے تین طرح کے لوگ تھے ۔ (۱) منافقین جو چھوٹی معذرتیں پیش کر رہے تھے۔ (۲)سیدنا ابولبابہ رضی اللہ عنہ اور آپ کے چھ ساتھی جنھوں نے اپنے آپ کو ستون سے باندھ دیا تھا۔ (۳)سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ، سیدنا ہلال بن امیہ، اور حضرت مرارہ بن ربیعہ رضی اللہ عنہ یہ تینوں بھی پکے مومن تھے۔ سستی اور راحت طلبی، پھلوں کی پختگی، سائے کے حصول وغیرہ کے لیے جنگ میں شریک نہیں ہوئے تھے، انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے کوئی بہانہ یا عذر پیش نہیں کیا تھا بلکہ سچی سچی بات برملا بتلادی جس پر ان کا معاملہ تا حکم الٰہی التوا میں ڈال دیا۔ اور یہ اللہ کے ارادے پر موقوف ہیں وہ چاہے تو معاف کردے چاہیے تو سزا دے لیکن وہ اپنے معاملے میں آپ غالب و حکیم ہے اور اُسکی رحمت اسکے غضب پر ہاوی ہے اسکے سوا کوئی معبود و عربی نہیں۔