وَمِنَ الْأَعْرَابِ مَن يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَيَتَّخِذُ مَا يُنفِقُ قُرُبَاتٍ عِندَ اللَّهِ وَصَلَوَاتِ الرَّسُولِ ۚ أَلَا إِنَّهَا قُرْبَةٌ لَّهُمْ ۚ سَيُدْخِلُهُمُ اللَّهُ فِي رَحْمَتِهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
اور (ہاں) اعرابیوں ہی میں وہ لوگ بھی ہیں جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں اور جو کچھ (راہ حق میں) خرچ کرتے ہیں اسے اللہ کے تقریب اور رسول کی دعاؤں کا وسیلہ سمجھتے ہیں۔ تو سن رکھو کہ فی الحقیقت وہ ان کے لیے موجب تقریب ہی ہے، اللہ انہیں اپنی رحمت کے دائرہ میں داخل کرے گا، بلاشبہ وہ بڑا ہی بخشنے والا بڑا ہی رحمت والا ہے۔
دعاؤں کے طلب گار بدوی مومن: یہ دوسری قسم کے دیہاتی ہیں جن کو اللہ نے شہر سے دور رہنے کے باوجود اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لانے کی توفیق دی۔ اور ان کے ایمان کی بدولت ان سے وہ جہالت بھی دور فرمادی جو بدویت ہونے کی وجہ سے عام طور پر اہل بادیہ میں ہوتی ہے چنانچہ وہ اللہ کی راہ میں خرچ کردہ مال کو جرمانہ سمجھنے کی بجائے اللہ کے قرب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائیں لینے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت فرمائی تھی کہ جب آپ صدقہ دینے والے کو دعا دیا کریں۔ اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا ان کے لیے باعث تسکین اور قرب الٰہی اور رحمت الٰہی کا ذریعہ ہی ہوتا ہے۔ میں ہے کہ ایک صدقہ لانے والے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی: ’’اے اللہ! ابو اوفیٰ کی آل پر رحمت نازل فرما۔‘‘(بخاری: ۱۴۹۷)