إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَسْتَأْذِنُونَكَ وَهُمْ أَغْنِيَاءُ ۚ رَضُوا بِأَن يَكُونُوا مَعَ الْخَوَالِفِ وَطَبَعَ اللَّهُ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ فَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ
الزام تو دراصل ان پر ہے جو تجھ سے (بیٹھے رہنے کی) اجازت مانگتے ہیں حالانکہ مالدار ہیں، انہوں نے پسند کیا کہ (جب سب لوگ راہ حق میں کوچ کر رہے ہوں تو یہ) گھروں میں رہ جانے والی عورتوں کے ساتھ رہیں (حقیقت یہ ہے کہ) اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی، پس جانتے بوجھتے نہیں۔
یہ وہ منافقین ہیں جن کا تذکرہ آیت نمبر 86/87 میں گزرا ہے۔ یہاں دوبارہ ان کا ذکر مخلص مسلمانوں کے مقابلے میں کیا جا رہا ہے۔ کہ انھیں فی الواقع کوئی عذر نہیں تھا مالدار تھے صحت مند تھے لیکن پھر بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر بہانے تراش تراش کر پیچھے رہ جانا چاہتے تھے جیسے بیمار، معذور، بچے بوڑھے اور عورتیں جو جنگ میں شرکت نہیں کر سکتے۔ (یہ کچھ نہیں جانتے) کا مطلب ہے کہ وہ نہیں جانتے کہ پیچھے رہنا کتنا بڑا جُرم ہے ورنہ شاید وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیچھے نہ رہتے۔