وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَأَمْنًا وَاتَّخِذُوا مِن مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى ۖ وَعَهِدْنَا إِلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ أَن طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ
اور (پھر دیکھو) جب ایسا ہسا ہوا تھا کہ ہم نے (مکہ) کے اس گھر کو (یعنی خانہ کعبہ کو) انسانوں کے گرد آوری کا مرکز اور امن و ھرمت کا مقام ٹھہرا دیا اور حکم دیا کہ ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ (ہمیشہ کے لیے) نماز کی جگہ بنا لی جائے۔ اور ہم نے ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا تھا کہ ہمارے نام پر جو گھر بنایا گیا ہے اسے طواف کرنے والوں، عبادت کے لیے ٹھہرنے والوں اور رکوع و سوجد کرنے والوں کے لیے (ہمیشہ) پاک رکھنا اور ظلم و معصیت کی گندگیوں سے آلودہ نہ کرنا)
جس پتھر پر کھڑے ہوکر حضرت ابراہیم علیہ السلام خانہ کعبہ تعمیر کرتے رہے اسی پر کھڑے ہوکر آپ نے لوگوں کو حج کے لیے پکارا۔ یہ پتھر خانہ کعبہ کے صحن میں شیشے کے کور میں محفوظ ہے۔ اس پر آپ کے پاؤں کے نشان موجود ہیں۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ تین باتوں میں میری رائے اللہ کے علم کے موافق ہوگئی (جن میں ایک یہ تھی) میں نے کہا یارسول اللہ! کیا ہی اچھا ہو اگر آپ مقام ابراہیم کو نماز کی جگہ قراردے دیں۔ اس وقت اللہ نے یہ آیت اتار دی (وَ اتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّى) طواف کرنے والے اسی مقام کے پاس دورکعت نفل ادا کرتے ہیں۔(صحیح بخاری: ۴۴۸۳، ۲۳۹۹) مساجد کی صفائی: اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مساجد کو صاف ستھرا رکھنا اور روشنی کا انتظام نہایت فضیلت کا کام ہے۔ جس کا اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کو حکم دیا۔ یہاں صفائی سے مراد صرف ظاہری صفائی نہیں بلکہ باطنی صفائی بھی ہے۔ کہ اس گھر میں مشرک لوگ نہ آئیں۔ یہاں اللہ کے سوا کسی اور کا نام بلند نہ کیا جائے جبکہ قریش نے اس کے اندر 365بت رکھے ہوئے تھے: (۱)اللہ کے گھر کی آبادی کے لیے اللہ کے ذکر کی ضرورت ہے۔ (۲)۔ جو کتاب دی گئی ہے اس کے مطابق زندگی بسر کی جائے۔(۳) یہاں کسی جاندار پر زیادتی کرنا جائز نہیں۔