سورة التوبہ - آیت 81

فَرِحَ الْمُخَلَّفُونَ بِمَقْعَدِهِمْ خِلَافَ رَسُولِ اللَّهِ وَكَرِهُوا أَن يُجَاهِدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَقَالُوا لَا تَنفِرُوا فِي الْحَرِّ ۗ قُلْ نَارُ جَهَنَّمَ أَشَدُّ حَرًّا ۚ لَّوْ كَانُوا يَفْقَهُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

جو (منافق جہاد میں شریک نہیں ہوئے اور) پیچھے چھوڑ دیئے گئے وہ اس بات پر خوش ہوئے کہ اللہ کے رسول کی خواہش کے خلاف اپنے گھروں میں بیٹھے ہوئے ہیں اور انہیں یہ بات ناگوار ہوئی کہ اپنے مال اور اپنی جانوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کریں انہوں نے لوگوں سے کہا تھا اس گرمی میں (گھر کا آرام چھوڑ کر) کوچ نہ کرو۔ (اے پیغمبر) تم کہو دوزخ کی آگ کی گرمی تو (اس سے) کہیں زیادہ گرم ہوگی اگر انہوں نے سمجھا ہوتا (تو کبھی اپنی اس حالت پر خوش نہ ہوتے)

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

جہنم کی آگ کالی ہے: ان منافقین کا ذکر ہے جو غزوہ تبوک میں نہیں گئے تھے اور جھوٹے بہانے بناکر اجازت طلبی کرلی تھی۔ یہ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نہیں گئے تھے اور گھروں میں بیٹھنے پر خوش تھے۔ انھیں اللہ کی راہ میں اپنی جان و مال کے ساتھ جہاد کرنا مشکل لگتا تھا انھوں نے دوسروں کو بھی روکنے کی کوشش کی کہ اتنی گرمی ہے کہاں نکلو گے؟ ایک طرف پھل پکے ہوئے ہیں، سائے بڑھے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف لوکے تھپیڑے چل رہے ہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جہنم کی آگ کی گرمی کے مقابلہ میں دنیا کی گرمی کوئی حیثیت نہیں رکھتی اگر انھیں یہ علم ہوتا تو کبھی پیچھے نہ رہتے۔ ایک روایت میں ہے کہ تمہاری یہ آگ آتش دوزخ کے ستر حصوں میں سے ایک حصہ ہے اور یہ سمندر کے پانی میں دو مرتبہ بجھائی ہوئی ہے۔ (مسند احمد: ۲/ ۲۴۴) نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ایک ہزار سال تک آتش دوزخ دھونکی گئی تو سرخ ہوگئی، پھر ایک ہزار سال تک جلائی گئی تو سفید ہوگئی، پھر ایک ہزار سال تک دھونکی گئی تو سیاہ ہوگئی پس وہ اندھیری رات جیسی سخت سیاہ ہے۔ (ترمذی: ۲۵۹۱، ابن ماجہ: ۴۳۲۰)