وَمِنْهُم مَّنْ عَاهَدَ اللَّهَ لَئِنْ آتَانَا مِن فَضْلِهِ لَنَصَّدَّقَنَّ وَلَنَكُونَنَّ مِنَ الصَّالِحِينَ
اور (دیکھو) ان میں (کچھ لوگ) ایسے بھی ہیں جنہوں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ اگر وہ اپنے فضل سے ہمیں (مال و دولت) عطا فرمائے گا تو ہم ضرور خیرات کریں گے اور ضرور نیکی کی زندگی بسر کریں گے۔
عہد بھول گیا: یہ آیت ثعلبہ بن حاطب انصاری رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی۔ اس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی تھی کہ میرے لیے مالداری کی دعا کیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’تھوڑا مال جس سے شکر ادا ہو اس بہت مال سے اچھا ہے جو اپنی طاقت سے زیادہ ہو۔‘‘ اس نے پھر دوبارہ یہی درخواست کی تو آپ نے پھر سمجھایا کہ تو اپنا حال اللہ کے نبی جیسا رکھنا پسند نہیں کرتا؟ واللہ میں اگر چاہتا تو پہاڑ سونے چاندی کے بن کر میرے ساتھ چلتے۔ اس نے کہا کہ اللہ اگر مجھے مالدار کردے تو میں بہت سخاوت کروں گا ہر ایک کو اس کا حق ادا کروں گا، آپ نے اس کے مال میں برکت کی دعا کی، اس کی بکریاں اس طرح بڑھنے لگیں جیسے کیڑے بڑھتے ہیں، یہاں تک کہ مدینہ شریف اس کے لیے تنگ پڑ گیا یہ ایک میدان میں نکل گیا، ظہر، عصر جماعت کے ساتھ ادا کرتا جبکہ باقی نمازیں جماعت کے ساتھ نہ پڑھ پاتا۔ آہستہ آہستہ سب جماعتیں چھوٹ گئیں، مال بڑھتا گیا، ہفتے کے بعد جمعہ کے لیے آنا بھی چھوڑ دیا، اسی دوران مال سے زکوٰۃ اور صدقہ کے احکام کی آیات آگئیں، جب اس سے زکوٰۃ لینے گئے تو اس نے کہا مال تو میرا ہے میں نے اپنی محنت سے کمایا ہے۔ یہ زکوٰۃ تو میرے اوپر چٹی ہے۔ پھر اسے خیال آیا کہ جن کی دعا سے میں دولت مند ہوا ہوں وہ ناراض ہوجائیں گے، پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ نے زکوٰۃ نہیں لی۔ آپ نے فرمایا ’’اگرچہ اس وقت مجبوری یا بد دلی سے ہی آتا تو ٹھیک تھا۔‘‘اس کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ، اور حضرت عثمان نے بھی اس سے زکوٰۃ نہیں لی اور وہ اسی طرح مر گیا۔ (ابن کثیر: ۲/ ۵۸۸)