يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنَافِقِينَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ ۚ وَمَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ ۖ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ
اے پیغمبر ! کافروں اور منافقوں دونوں سے جہاد کر اور ان کے ساتھ سختی سے پیش آ (کیونکہ کافروں کی عہد شکنیاں اور منافقوں کا عذر فریب اب آخری درجہ تک پہنچ چک ہے) بالآخر ان کا ٹھکانا دوزخ ہے (اور جس کا آخری ٹھکانا دوزخ ہو تو) کیا ہی بری پہنچنے کی جگہ ہے۔
منافقوں کے ساتھ سختی سے پیش آؤ: منافقوں کی اسلام دشمن سرگرمیوں اور سازشوں کو نوسال گزرچکے تھے۔ اب تک منافقوں سے جو نرم رویہ اختیار کیا جاتا رہا اس کی چند وجوہات تھیں۔ جو یہ ہیں: (۱)آپ صلی اللہ علیہ وسلم طبعاً نرم خو واقع ہوئے تھے۔ درگزر اور معاف کردینے کی طرف زیادہ مائل تھے۔ (۲) اگر آپ سختی کرتے کو اسلام کی نشرواشاعت کے مقاصد پیچھے رہ جاتے۔ (۳) اغیار یعنی غیر مسلموں کے طعنے تھے جب عبداللہ بن ابی نے اوس و خزرج کے درمیان فتنہ کھڑا کرنے کی کوشش اور رسول اللہ کے حق میں نازیبا کلمات کہے۔ جب عبداللہ بن ابی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے نازیبا کلمات کہے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت چاہی کہ میں اسے قتل نہ کردوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے کہا ’’نہیں جانے دو لوگ کیا کہیں گے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کو بھی قتل کرنے لگا ہے۔ (بخاری: ۷/ ۴۹۰۵) مگر جب ان کی ریشہ دوانیاں حد سے بڑھ گئیں تو ان سے سختی سے نمٹنے کا حکم دیا گیا، سختی کرنے کا مطلب یہ کہ آئندہ ان کی باتوں پر اعتماد نہ کیا جائے، ان کی فتنہ پردازیوں پر پردہ نہ ڈالا جائے، تاکہ انھیں مسلمانوں میں نفاق کا زہر پھیلانے کا موقع نہ مل سکے، ان کی سازشوں کو کھلم کھلا بے نقاب کیا جائے، ان کی شہادت کو معتبر نہ سمجھا جائے۔ انھیں جماعتی مشوروں سے الگ رکھا جائے، کوئی عہدہ یا منصب ان کے سپرد نہ کیا جائے، ان سے مخلصانہ میل جول اور تعلقات نہ رکھے جائیں تاکہ ان پر واضح ہوجائے کہ اسلامی معاشرہ میں ان کے لیے عزت و وقار کا کوئی مقام نہیں۔ دراصل منافقوں کو اسلام لانے کا سب سے بڑا فائدہ یہی تھا کہ ان کے جان و مال محفوظ رہیں، کیونکہ باطن کا حال تو اللہ جانتا ہے۔