كَالَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ كَانُوا أَشَدَّ مِنكُمْ قُوَّةً وَأَكْثَرَ أَمْوَالًا وَأَوْلَادًا فَاسْتَمْتَعُوا بِخَلَاقِهِمْ فَاسْتَمْتَعْتُم بِخَلَاقِكُمْ كَمَا اسْتَمْتَعَ الَّذِينَ مِن قَبْلِكُم بِخَلَاقِهِمْ وَخُضْتُمْ كَالَّذِي خَاضُوا ۚ أُولَٰئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ
(منافقو ! تمہارا بھی وہی حال ہوا) جیسا ان لوگوں کا حال تھا کہ تم سے پہلے گزر چکے ہیں، وہ تم سے کہیں زیادہ قوت والے تھے اور مال و اولاد بھی تم سے زیادہ رکھتے تھے۔ پس ان کے حصے میں جو کچھ دنیا کے فوائد آئے وہ برت گئے، تم نے بھی اپنے حصہ کا فائدہ اسی طرح برت لیا جس طرح انہوں نے برتا تھا اور جس طرح (ہر طرح کی باطل پرستی کی) باتیں وہ کر گئے تم نے بھی کرلیں (پس یہ نہ بھولو کہ) یہی لوگ تھے جن کے سارے کام دنیا و آخرت میں اکارت ہوئے اور یہی ہیں گھاٹے ٹوٹے میں رہنے والے۔
یعنی قوم ہود، قوم ثمود، قوم نوح، قوم ابراہیم وغیرہ وغیرہ ایسی اقوام تھیں، جن کی شان و شوکت تم لوگوں سے بڑھ کر تھی، انھوں نے تم سے بڑھ کر عیش و عشرت کی زندگی بسر کی، وہ طاقت اور مال و اولاد کے لحاظ سے بھی تم سے بڑھ کر تھے وہ لوگ بھی دنیا میں مست ہوکر اللہ کی آیات کو بھول گئے۔ آج تم بھی وہی کر رہے ہو۔ نتیجہ یہ ہو گا کہ اگر کسی نے دنیا میں کوئی اچھے کام کیے بھی ہوں تو آخرت میں وہ سب رائیگاں ہوجائیں گے۔ مقدر کے مزے لوٹنے سے مراد: جتنا عیش و آرام تمہاری تقدیر میں لکھ دیا گیا وہ تم برت لو جس طرح تم سے پہلے لوگوں نے اپنا حصہ برتا اور پھر موت یا عذاب سے ہمکنار ہوگئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم اپنے سے پہلے لوگوں کے طریقوں پر ضرور چلو گے، بالشت بھر بالشت، ذراع بھر ذراع، اور ہاتھ بھر ہاتھ۔ یہاں تک کہ اگر وہ کسی گوہ کے بل میں گھسے ہوں تو تم بھی ضرور گھسو گے، لوگوں نے پوچھا؟کیا اس سے آپ کی مراد اہل کتاب ہیں؟ آپ نے فرمایا اور کون۔ (بخاری: ۳۴۵۶)