يَحْذَرُ الْمُنَافِقُونَ أَن تُنَزَّلَ عَلَيْهِمْ سُورَةٌ تُنَبِّئُهُم بِمَا فِي قُلُوبِهِمْ ۚ قُلِ اسْتَهْزِئُوا إِنَّ اللَّهَ مُخْرِجٌ مَّا تَحْذَرُونَ
منافق اس بات سے (بھی) ڈرتے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو ان کے بارے میں کوئی سورت نازل ہوجائے اور جو کچھ ان کے دلوں میں (چھپا) ہے وہ انہیں (علانیہ) جتا دے (تو اے پیغمبر) تم ان سے کہہ دو : تم (اپنی عادت کے مطابق) تمسخر کرتے رہو۔ یقینا اللہ اب وہ بات (پوشیدگی سے) نکال کر ظاہر کردینے والا ہے جس کا تمہیں اندیشہ رہتا ہے۔
منافق نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے گھبراتے بھی ہیں: منافق جب آپس میں مل کر بیٹھتے تو باتیں تو کرلیتے پھر خوف زدہ رہتے کہ کہیں اللہ کی طرف سے مسلمانوں کو بذریعہ وحی الٰہی خبر نہ ہوجائے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ تم مسلمانوں کے دین پر اور انکی حالت پر دل کھول کر مذاق اُڑالو اللہ بھی وہ راز افشا کردے گا جو تمہارے دلوں میں ہیں اور یاد رکھو ایک دن رسوا و ذلیل ہوکر رہو گے۔ تفسیر طبری میں ہے کہ یہ بیمار دل لوگ یہ نہ سمجھیں کہ ان کے دلوں کی بدیاں ظاہر نہ ہونگی ہم تو انھیں اسقدر رسوا کریں گے اور ایسی نشانیاں تیرے سامنے رکھ دیں گے کہ تو ان کے لب و لہجہ سے ہی ان کو پہچان لے گا اس لیے اس سورۃ کا ایک نام ہی سورۃ الفاضحہ بھی ہے۔ کیونکہ اس نے منافقوں کی قلعی کھول کر رکھ دی۔ (تفسیر طبری: ۱۴/ ۳۳۲)