إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ ۖ فَرِيضَةً مِّنَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
صدقہ کا مال (یعنی مال زکوۃ) تو اور کسی کے لیے نہیں ہے۔ صرف فقیروں کے لیے ہے، اور مسکینوں کے لیے ہے، اور ان کے لیے جو اس کی وصولی کے کام پر مقرر کیے جائیں، اور وہ کہ ان کے دلوں میں (کلمہ حق کی) الفت پیدا کرنی ہے۔ اور وہ کہ ان کی گردنیں (غلامی کی زنجیروں میں) جکڑی ہیں (اور انہیں آزاد کروانا ہے) نیز قرض داروں کے لیے (جو قرض کے بوجھ سے دب گئے ہوں، اور ادا کرنے کی طاقت نہ رکھیں) اور اللہ کی راہ میں (یعنی جہاد کے لیے اور ان تمام کاموں کے لیے جو مثل جہاد کے اعلائے کلمہ حق کے لیے ہوں) اور مسافروں کے لیے (جو اپنے گھر نہ پہنچ سکتے ہوں اور مفلسی کی حالت میں پڑگئے ہوں) یہ اللہ کی طرف سے ٹھہرائی ہوئی بات ہے اور اللہ (سب کچھ) جاننے والا (اپنے تمام حکموں میں) حکمت رکھنے والا ہے۔
صدقات کی تقسیم کے آٹھ مصارف ہیں: اس آیت میں صدقات سے مراد زکوٰۃ ہے جو فرض ہے۔ جبکہ دوسرے صدقات نفل ہیں، معاملات کی حکمتوں کو اللہ جانتاہے اس لیے اُس نے یہ آٹھ مدات مقرر کی ہیں۔ زکوٰۃ کسے کہتے ہیں: یہ ایک ایسا ٹیکس ہے جو دولت مندوں سے لے کر محتاجوں کو دیا جاتا ہے مقررہ حصہ جسکی ادائیگی فرض ہے زکوٰۃ کی وصولی اور تقسیم کا انتظام حکومت کا فرض ہے۔ (لیکچر سے ماخوذ) صدقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نہیں بلکہ اللہ کے حکم کے تحت ہیں: صدقات کی تقسیم پر منافقوں کو اعتراض ہوا تھا تو اسکی تقسیم کی مدات اللہ تعالیٰ نے خود ہی مقرر فرمادیں کہ یہ پیغمبر کی مرضی پر موقوف نہیں بلکہ ہمارے بتائے ہوئے مصارف میں ہی لگتی ہے۔ ان مصارف کی مختصر تفصیل حسب ذیل ہے: (۱) فقیر۔ (۲) اور مسکین۔ چونکہ حالت کے اعتبار سے یہ دونوں ایک دوسرے کے قریب قریب ہیں اس لیے انکی الگ الگ تعریف میں خاصا اختلاف ہے، تاہم دونوں میں یہ بات قطعی ہے کہ جو اپنی حاجات و ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مطلوبہ رقم اور وسائل سے محروم ہوں۔ ان کو فقیر اور مسکین کہاجاتا ہے۔ مسکین کی تعریف: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسکین وہ گھومنے پھرنے والا نہیں جو ایک ایک یا دو دو لقمے یا کھجور کے لیے گھر گھر پھرتا ہے۔ بلکہ مسکین وہ ہے جس کے پاس اتنا مال بھی نہ ہو جو اسے بے نیاز کردے، نہ وہ ایسی مسکنت اپنے اوپر طاری رکھے کہ لوگ غریب اور مستحق سمجھ کر اس پر صدقہ کریں اور نہ خود لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کرے۔ (بخاری: ۱۴۷۹) یعنی سفید پوش۔ (۳)۔ عاملین زکوٰۃ: یعنی حکومت کے وہ اہل کار ہیں جو زکوٰہ کی وصولی و تقسیم اور حساب کتاب پر مامور ہوں۔ (۴)مؤلفتہ القلوب: ایک تو وہ کافر جو کچھ کچھ اسلام کی طرف مائل ہو اور اسکی امداد کرنے پر یہ اُمید ہوکہ وہ مسلمان ہوجائے گا دوسرے وہ نو مسلم افراد ہیں جن کو اسلام پر مضبوطی سے قائم رکھنے کے لیے امداد کی ضرورت ہو۔ تیسرے وہ افراد بھی مولفۃ القلوب میں شامل ہیں جن کو امداد دینے کی صورت میں یہ اُمید ہوکہ وہ اپنے علاقے کے لوگوں کو مسلمانوں پر حملہ آور ہونے سے روکیں اور کمزور مسلمانوں کا تحفظ کریں گے یہ اور اسی قسم کی دیگر صورتیں تالیف قلب میں داخل ہیں، جن پرزکوٰۃ کی رقم خرچ کی جاسکتی ہے۔ چاہے مذکورہ افراد مالدار ہی ہوں۔ (۵)گردنیں آزاد کرانے میں: بعض علماء نے اس سے صرف مکاتب غلام مراد لیے ہیں اور دیگر علماء نے مکاتب و غیر مکاتب ہر قسم کے غلام مراد لیے ہیں امام شوکانی نے اسی رائے کو ترجیح دی ہے۔احادیث میں بھی اسکی بہت فضیلت وارد ہے۔ کسی شخص نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ مجھے کوئی ایسا عمل بتائیے جو مجھے جنت سے قریب اور دوزخ سے دور کردے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آزاد کر اور گردن خلاصی کر، اس نے کہا یہ دونوں ایک ہی چیز نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! نہیں نسمہ کی آزادگی یہ ہے کہ تو اکیلا ہی کسی غلام کو آزاد کردے، اور گردن خلاصی یہ ہے تو بھی اس میں جو تجھ سے ہوسکے مدد کرے۔ (مسند احمد: ۴/ ۲۹۹، ح: ۱۸۶۸۲، ابن حبان: ۳۷۴) (۶)غارمین یعنی مقروض: ایک تو وہ مقروض جو اپنے اہل و عیال کے نان و نفقہ اور ضروریات زندگی فراہم کرنے میں لوگوں کے زیر بار ہوگئے۔ اور ان کے پاس نقد رقم اور ایسا سامان بھی نہیں کہ جسے بیچ کر وہ قرض ادا کردیں۔ دوسرے وہ جنھوں نے کسی کی ضمانت دی اور پھر وہ اسکی ادائیگی کے ذمہ دار قرار پاگئے یا کسی کی فصل یا کاروبار تباہ ہوگیا اور اس بنیاد پر وہ مقروض ہوگیا۔ ان سب کی زکوٰۃ کی مد سے مدد کرنا جائز ہے۔ (۷)فی سبیل اللہ: یہ میدان بڑا وسیع ہے اکثر ائمہ سلف کے اقوال کے مطابق اسکا بہترین مصرف جہاد فی سبیل اللہ میں خرچ کرنا ہے یعنی جنگی سامان و ضروریات اور مجاہد پر چاہے وہ مالدا ہی ہوزکوٰۃ کی رقم خرچ کرنا جائز ہے اس کے علاوہ مدارس کا قیام، اس کے اخراجات تبلیغ و دعوت بھی فی سبیل اللہ میں داخل ہے کیونکہ اس سے بھی مقصد، جہاد کی طرح اعلائے کلمتہ اللہ ہے۔ (۸)ابن السبیل: سے مراد مسافر ہے یعنی اگر کوئی مسافر، سفر میں امداد کا مستحق ہوگیا، چاہے وہ اپنے گھر اور وطن میں صاحب حیثیت ہی ہو۔ اسکی امداد زکوٰۃ کی رقم سے کی جاسکتی ہے۔ اللہ فرماتا ہے کہ وہ ظاہر و باطن کا عالم ہے اپنے بندوں کی مصلحتوں سے واقف ہے وہ اپنے قول، فعل شریعت میں حکمت والا ہے زکوٰۃ کے یہ مصارف اللہ کی طرف سے فرض ہیں۔