وَلَوْ أَنَّهُمْ رَضُوا مَا آتَاهُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَقَالُوا حَسْبُنَا اللَّهُ سَيُؤْتِينَا اللَّهُ مِن فَضْلِهِ وَرَسُولُهُ إِنَّا إِلَى اللَّهِ رَاغِبُونَ
اور (کیا اچھا ہوتا) اگر ایسا ہوتا کہ جو کچھ اللہ اور اس کے رسول نے انہیں دے دیا اس پر رضا مند ہوجاتے اور کہتے ہمارے لیے اللہ بس کرتا ہے۔ اللہ اپنے فضل سے ہمیں (بہت کچھ) عطا فرمائے گا اور اس کا رسول بھی (عطا و بخشش میں کمی کرنے والا نہیں) ہمارے لیے تو بس اللہ ہی غایت و مقصود ہے۔
اگر قناعت کرتے: اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں منافقوں کے حق میں یہی بہتر تھا کہ انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں جو بھی اللہ نے انھیں دلوادیا ہے اس پر قناعت کرتے، صبر و شکر کرتے اور کہتے کہ اللہ ہمیں کافی ہیں وہ اپنے فضل سے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں اور بھی دلوائے گا، ہماری اُمید ذات الٰہی سے ہی وابستہ ہے۔ پس چاہیے کہ اللہ جو دے اس پر انسان کو صبر و شکر کرنا چاہیے، رغبت اور توجہ، اُمید و توقع اسکی ذات پاک سے رکھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں سرمو فرق نہ کرے، اللہ تعالیٰ سے توفیق طلب کرے، جو احکام دیے انھیں بجالائے اور جن سے منع کیا گیا انھیں چھوڑ دے اسی میں بہتری ہے۔ حدیث میں ہے كہ عمرو بن تغلب رضی اللہ عنہ كہتے ہیں ایك دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ میں اللہ كی حمد و ثنا بیان كی، اور فرمایا: میں بعض لوگوں كو مال دیتا ہوں، اور بعض كو نہیں دیتا، جنہیں میں دیتا ہوں اور بعض كو نہیں۔ جنہیں میں دیتا ہوں وہ اس لیے نہیں دیتا كہ مجھے زیادہ محبوب ہیں۔ بلكہ اس لیے كہ میں ان میں بے چینی اور بوكھلا پن دیكھتا ہوں، اور جنہیں نہیں دیتا تو ان كی سیر چشمی اور بھلائی پر بھروسا كرتا ہے، جو اللہ نے انہیں دے ركھی ہے۔ ایسے ہی لوگوں میں سے ایك عمرو بن تغلب ہے۔ آپ سے یہ بات سن كر مجھے اتنی خوشی ہوئی كہ اگر مجھے سرخ اونٹ مل جاتے تو بھی اتنی خوشی نہ ہوتی۔ (بخاری)