فَلَا تُعْجِبْكَ أَمْوَالُهُمْ وَلَا أَوْلَادُهُمْ ۚ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُم بِهَا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَتَزْهَقَ أَنفُسُهُمْ وَهُمْ كَافِرُونَ
تو (دیکھو) یہ بات کہ ان لوگوں کے پاس مال و دولت ہے اور صاحب اولاد ہیں تمہیں متعجب نہ کرے، یہ تو اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ اللہ نے مال و اولاد ہی کی راہ سے انہیں دنیوی زندگی میں عذاب دینا چاہا ہے (کہ نفاق و بخل کی وجہ سے مال کا غم و بال جان ہورہا ہے اور اولاد کو اپنے سے برگشتہ اور اسلام میں ثابت قدم دیکھ کر شب و روز جل رہے ہیں) اور (باقی رہا آخرت کا معاملہ تو) ان کی جانیں اس حالت میں نکلیں گی کہ ایمان سے محروم ہوں گے۔
کثرت مال و دولت سزا بھی ہے: منافقوں کا مطمع نظر صرف دنیوی مفادات کا حصول ہوتا ہے، لہٰذا ان کے نزدیک عام مادہ پرستوں کی طرح مال و اولاد کی فراوانی عزوجاہ کا معیار تھی، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ان کے مال و اولاد سے آپ متاثر نہ ہوں کیونکہ یہ سب بطور آزمائش ہے۔ جس طرح سورۃ طہ ۱۳۱ میں فرمایا ’’اور کئی طرح کے لوگوں کو جو ہم نے دنیا کی زندگی میں آرائش کی چیزوں سے بہرہ مند کیا ہے تاکہ ان کی آزمائش کریں۔‘‘ان پر نگاہ نہ کرنا۔ اور فرمایا: ﴿اَيَحْسَبُوْنَ اَنَّمَا نُمِدُّهُمْ بِهٖ مِنْ مَّالٍ وَّ بَنِيْنَ۔ نُسَارِعُ لَهُمْ فِي الْخَيْرٰتِ بَلْ لَّا يَشْعُرُوْنَ﴾ (المومنون: ۵۵۔ ۵۶) ’’کیا لوگ خیال کرتے ہیں کہ ہم جو دنیا میں ان کو مال اور بیٹوں سے مدد دیتے ہیں (تو اس ) ان کی بھلائی میں ہم جلدی کر رہے ہیں نہیں بلکہ یہ سمجھتے ہی نہیں۔‘‘ امام ابن کثیر اور امام ابن جریر طبری نے اس سے زکوٰۃ اورانفاق فی سبیل اللہ مراد لیا ہے۔ یعنی ان منافقین سے زکوٰۃ اور صدقات تو (جو وہ مسلمان ظاہر کرنے کے لیے دیتے ہیں ) دنیا میں قبول کرلیے جائیں تاکہ اس طریقے سے مالی مار ان کو دنیا میں بھی دی جائے۔ اسکے علاوہ ان کی اولاد یں مسلمان ہوگئیں جن کی نظروں میں مال و جائیداد کی قدر و قیمت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری کے مقابلہ میں ہیچ تھی۔ اس طرح اللہ نے ان کی اولاد کے ذریعے انھیں دنیا میں سزا دے دی اور چونکہ وہ اپنی خود پرستی اور آخر تک نناوے کے ہی چکر میں پڑے رہے یہاں تک کہ انھیں موت آگئی اور وہ اسی نفاق و ذلت کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوئے۔