قُلْ أَنفِقُوا طَوْعًا أَوْ كَرْهًا لَّن يُتَقَبَّلَ مِنكُمْ ۖ إِنَّكُمْ كُنتُمْ قَوْمًا فَاسِقِينَ
(اور) کہو : تم (بظاہر) خوشی سے (راہ حق میں) خرچ کرو یا ناخوش ہوکر، تمہارا خرچ کبھی قبول نہیں کیا جائے گا، کیونکہ تم ایک ایسے گروہ ہوگئے جو (احکام الہی سے) نافرمان ہے۔
منافق کا مال بھی قبول نہیں: جد بن قیس جس نے رومی عورتوں کے فتنہ میں مبتلا ہوجانے کا بہانہ کرکے جہاد پر جانے سے تو معذرت کرلی مگر ساتھ ہی یہ کہا کہ میں مالی اعانت کرنے کو تیار ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے جواب دیا کہ خرچ کرو یا نہ کرو دونوں صورتوں میں نا مقبول ہے۔ کیونکہ قبولیت کے لیے ایمان شرط اوّل ہے اور وہی تمہارے اندر مفقودہے۔ اور نا خوشی سے خرچ کیا ہوا مال اللہ کے ہاں ویسے ہی مردود ہے۔ اس لیے کہ وہاں قصد (ارادہ) ہی صحیح نہیں یہ آیت بھی اسی طرح ہے جیسا کہ سورۃ التوبہ (۰۸) میں ہے آپ ان کے لیے بخششیں مانگیں یا نہ مانگیں۔ (یعنی دونوں برابر ہیں)