إِن تُصِبْكَ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ ۖ وَإِن تُصِبْكَ مُصِيبَةٌ يَقُولُوا قَدْ أَخَذْنَا أَمْرَنَا مِن قَبْلُ وَيَتَوَلَّوا وَّهُمْ فَرِحُونَ
(اے پیغمبر) اگر تمہیں کوئی اچھی بات پیش آجائے تو وہ انہیں (یعنی منافقوں کو) بری لگے اور اگر کوئی مصیبت پیش آجائے تو کہنے لگیں : اسی خیال سے ہم نے پہلے ہی اپنے لیے مصلحت بینی کرلی تھی، اور پھر گردن موڑ کے خوش خوش چل دیں۔
مومن اور منافق کی خصلت کا فرق: ان آیات میں مومنوں اور منافقوں کے نظریاتی اختلاف کو بیان کیا گیا ہے کہ منافق کے ہر کام میں دنیوی مفاد ملحوظ ہوتا ہے اگر اُسے کامیابی حاصل ہو تو اترانے لگتا ہے خوشی سے پھولا نہیں سماتا اور اگر ناکامی ہو تو خوشی ہوتے اور کہتے ہیں کہ اسی وجہ سے ہم تو ان سے بچے رہے۔ جبکہ مومن کی شان یہ ہے کہ وہ جو کچھ کرتا ہے دین کی سربلندی اور اللہ کی رضا کے لیے کرتا ہے۔ اسی لیے اللہ فرماتے ہیں کہ انھیں جواب دے دو کہ رنج و راحت اور ہم خود اللہ کی تقدیر اور اسکی منشا کے تحت ہیں وہ ہمارا مولا، ہمارا آقا ہے ہم مومن ہیں اور مومنوں کا بھروسہ اللہ ہی پر ہوتا ہے وہ ہمارا کارساز ہے اور وہ ہمیں کافی ہے۔