لَقَدِ ابْتَغَوُا الْفِتْنَةَ مِن قَبْلُ وَقَلَّبُوا لَكَ الْأُمُورَ حَتَّىٰ جَاءَ الْحَقُّ وَظَهَرَ أَمْرُ اللَّهِ وَهُمْ كَارِهُونَ
(اے پیغمبر) یہ واقعہ ہے کہ ان لوگوں نے اس سے پہلے بھی فتنہ انگیزی کی کوششیں کیں اور تمہارے خلاف ہر طرح کی تدبیریں الٹ پلٹ کر آزمائیں (چنانچہ جنگ احد میں انہوں نے اپنی طرف سے کوئی کمی نہیں کی تھی) یہاں تک کہ سچائی نمایاں ہوگئی اور اللہ کا حکم غالب ہوا اور ایسا ہونا ان کے لیے خوشگوار نہ تھا۔
عبداللہ بن ابی کا فتنہ: عبداللہ بن ابی کو دراصل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ میں تشریف آوری ایک آنکھ نہ بھاتی تھی۔آپ کی آمد سے پیشتر عبداللہ بن ابی کے سر پر سرداری کا تاج رکھا جانے والا تھا جو آپکے آنے سے کھٹائی میں پڑ گیا۔ یہی وہ حسد اور کینہ تھا جس نے اسے ساری عمر اسلام دشمنی پر اُکسائے رکھا، پھر جنگ بدر میں قریش کی شکست اور مسلمانوں کی فتح سے جل بُھن کر رہ گیا۔ جنگ اُحد میں مسلمانوں سے غداری کی اور نہایت نازک موقعہ پر اپنے تین سو ساتھیوں کو لیکر لشکر سے علیحدہ ہوگیا۔ مسجد ضرار قائم کرکے اپنی سازشوں کا نیا اڈا بنالیا۔ قیصر روم سے سازباز شروع کردی غرض ہر موقعہ پر اسکی انتہائی کوشش یہ ہوتی تھی کہ اسلام مغلوب ہوجائے اور مدینہ کا رئیس اعظم میں بنا دیا جاؤں۔ لیکن جیسے جیسے حق کی بلندی اور توحید کا بول بالا ہوتا گیا یہ لوگ حسد کی آگ میں جلتے رہے آخر حق نے قدم جمائے۔ اللہ کا کلمہ غالب آگیا اور یہ یونہی حسرت دل میں لیے اس جہان سے کوچ کرگئے۔