إِنَّمَا يَسْتَأْذِنُكَ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَارْتَابَتْ قُلُوبُهُمْ فَهُمْ فِي رَيْبِهِمْ يَتَرَدَّدُونَ
تجھ سے اجازت طلب کرنے والے تو وہی ہیں جو (فی الحقیقت) اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان نہیں رکھتے اور ان کے دل شک میں پڑگئے ہیں تو اپنے شک کی حالت میں متردد ہو رہے ہیں۔
یہ ان منافقین کا بیان ہے، جنھوں نے جھوٹے حیلے تراش کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جہاد میں نہ جانے کی اجازت طلب کرلی تھی، انہی کے لیے کہا گیا ہے کہ یہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اسی عدم اطمینان کی وجہ سے انھوں نے جہاد پر جانے سے گریز کیا۔ اگر ایمان ان کے دلوں پر راسخ ہوتا تو نہ جہاد سے بھاگتے اور نہ شکوک و شبہات ان کے دلوں میں پیدا ہوتے یہ یاد رہے کہ اس جہاد میں شرکت کے معاملے میں مسلمانوں کی چار قسمیں تھی: ۱۔ وہ مسلمان جو بلا تامل تیار ہوگئے۔ ۲۔ وہ مسلمان جن کے دل ابتداء میں ڈولے لیکن پھر جلد ہی تیار ہوگئے۔ ۳۔ جو ضعیف یا بیماری یا سواری یا سفر خرچ نہ ہونے کی وجہ سے فی الواقع معذور تھے۔ اور جنھیں خود اللہ نے اجازت دے دی تھی۔ ۴۔ وہ جو محض کاہلی کی وجہ سے شامل نہیں ہوئے تھے۔ اور جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم آئے تو انھوں نے اپنے گناہ کا اعتراف کرکے اپنے آپ کو توبہ اور سزا کے لیے پیش کردیا، ان کے علاوہ باقی منافقین اور جاسوس تھے۔