عَفَا اللَّهُ عَنكَ لِمَ أَذِنتَ لَهُمْ حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَتَعْلَمَ الْكَاذِبِينَ
(اے پیغمبر) اللہ تجھے بخشے ! تو نے ایسا کیوں کیا کہ (ان کی منافقانہ عذر دارویوں پر) انہیں (پیچھے رہ جانے کی) رخصت دے دی؟ اس وقت تک رخصت نہ دی ہوتی کہ تجھ پر کھل جاتا کون سچے ہیں اور تو معلوم کرلیتا کون جھوٹے ہیں؟
عتاب سے پہلے معافی کا اعلان: سبحان اللہ! اللہ کی اپنے محبوب سے کیسی باتیں ہورہی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سخت بات کہنے سے پہلے ہی معافی کا اعلان سنایا جارہا ہے۔ آپ سے کہا جارہا ہے کہ جہاد میں شرکت نہ کرنے والوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بغیر یہ تحقیق کیے کہ ان کے پاس معقول عذر ہے بھی کہ نہیں؟ اجازت دے دی، یاد رہے یہ تنبیہ اس لیے کی گئی ہے کہ اجازت دینے میں عجلت کی گئی اور پورے طور پر تحقیق کی ضرورت نہیں سمجھی گئی۔ ورنہ تحقیق کے بعد ضرورت مندوں کو اجازت دینے کی آپ کو اجازت حاصل تھی جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿فَاِذَا اسْتَاْذَنُوْكَ لِبَعْضِ شَاْنِهِمْ فَاْذَنْ ﴾ (النور: ۶۲) ’’جب یہ لوگ تجھ سے اپنے بعض کاموں کی وجہ سے اجازت مانگیں تو جس کو چاہیے اجازت دے دیں۔‘‘ جس کو چاہے کا یہ مطلب ہے جس کے پاس معقول عذر ہو اسے اجازت دینے کا تجھے حق حاصل ہے۔