إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِندَ اللَّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ۚ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ ۚ فَلَا تَظْلِمُوا فِيهِنَّ أَنفُسَكُمْ ۚ وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِينَ كَافَّةً كَمَا يُقَاتِلُونَكُمْ كَافَّةً ۚ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ
اللہ کے نزدیک مہینوں کی گنتی بارہ مہینے کی ہے۔ اللہ کی کتاب میں ایسا ہی لکھا گیا جس دن آسمانوں کو اور زمین کو اس نے پیدا کیا (یعنی جب سے اجرام سماویہ بنے ہیں خدا کا ٹھہرایا ہوا حساب یہی ہے) ان بارہ مہینوں میں سے چار مہینے حرمت کے مہینے ہوئے (یعنی رجب، ذی قعدہ، ذی الحجہ، محرم کہ امن کے مہینے سمجھے جاتے تھے اور لڑائی ممنوع تھی) دین کی سیدھی راہ یہ ہے۔ پس ان حرمت کے مہینوں میں (جنگ و خوں ریزی کر کے) اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو اور چاہیے کہ تمام مشرکوں سے بلا استثنا جنگ کرو جس طرح وہ تم سے بلا استثنا جنگ کرتے ہیں اور (ساتھ ہی) یاد رکھو کہ اللہ انہی کا ساتھی ہے جو (ہرحال میں) تقوی والے ہیں۔
حرمت کے مہینوں میں تقدیم و تاخیر: جس دن آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا یعنی ابتدائے آفرینش سے ہی اللہ تعالیٰ نے بارہ مہینے مقرر فرمائے ہیں۔ جن میں چار مہینے حرمت والے ہیں جن میں جدال و قتال کی بالخصوص ممانعت ہے۔ اس بات کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح بیان فرمایا ہے۔ کہ ’’زمانہ گھوم کر پھر اسی حالت پر آگیا جس حالت پر اس وقت تھا جب اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق فرمائی تھی سال بارہ مہینوں کا ہے جس میں چار مہینے حرمت والے ہیں تین پے درپے، ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم اور چوتھا رجب جو جمادی الآخر اور شعبان کے درمیان ہے۔ (بخاری: ۴۴۰۶) مشرک ان مہینوں میں ردو بدل کرکے سال میں چار حرمت والے مہینوں کی تعداد پوری کرلیتے تھے۔ مثلاً جب کوئی زور آور قبیلہ اپنے کسی کمزور دشمن قبیلے سے انتقام لینا چاہتا تو وہ اعلان کردیتا کہ اس سال محرم کے بجائے صفر حرمت والا مہینہ ہے۔ اور اس طرح وہ اپنی من مانی اغراض پوری کرلیتا پھر اعلان کر دیتا کہ اگلے سال محرم ہی حرمت والا مہینہ ہے یہ ردو بدل عموماً محرم اور صفر میں ہی ہوا کرتا تھا اس طرح یہ لوگ حلت و حرمت کے مختار بن بیٹھے تھے۔ جہاد قیامت تک جاری رہے گا: اس آیت میں مسلمانوں کو دو قسم کی ہدایات دی گئی ہیں ۔ (۱)حرمت والے مہینوں میں جنگ کی ابتدا تمہاری طرف سے ہرگز نہ ہونی چاہیے۔ ہاں اگر مشرک ہی لڑائی چھیڑ دیں تو پھر تمہیں بھی ان سے لڑنے کی اجازت ہے۔ (۲)جس طرح مشرک قبائل اپنی رنجشیں بھول کر تمہارے مقابلے میں متحد ہوجاتے ہیں تمہیں بھی اکٹھے ہوکر ان کا مقابلہ کرنا چاہیے۔