اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا إِلَٰهًا وَاحِدًا ۖ لَّا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۚ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ
ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے علما اور مشائخ کو پروردگار بنا لیا، اور مریم کے بیٹے مسیح کو بھی، حالانکہ انہیں جو کچھ حکم دیا گیا تھا وہ اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ ایک خدا کی بندگی کرو، کوئی معبود نہیں ہے مگر وہی، اس کی پاکی ہو اس ساجھی سے، جو یہ اس کی ذات میں لگا رہے ہیں۔
اہل کتاب کا اپنے علماء و مشائخ کو رب بنانا: اس آیت کی تفسیر حضر ت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ حدیث سے بخوبی واضح ہوجاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ آیت سن کر عرض کیا کہ یہود و نصاریٰ نے تو کبھی اپنے علماء کی عبادت نہیں کی۔ پھر یہ کیوں کہا گیا کہ انھوں نے ان کو رب بنالیا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’یہ ٹھیک ہے کہ انھوں نے ان کی عبادت نہیں کی لیکن یہ بات تو ہے نا کہ ان کے علماء نے جس کو حلال قرار دے دیا اُسے انھوں نے حلال اور جس چیز کو حرام کردیا، اسے انھوں نے حرام ہی سمجھا، یہی ان کی عبادت کرنا ہے۔‘‘ (ترمذی: ۲۹۵۳) حلال و حرام کا اختیار صرف اللہ کو ہے۔ یہی حق اگر کوئی شخص کسی اور کے اندر تسلیم کرتا ہے تو اسکا مطلب یہ ہے کہ اس نے اس کو اپنا رب بنالیا ہے۔ اس آیت میں ان لوگوں کے لیے بڑی تنبیہ ہے۔ جو اپنے اپنے پیشواؤں کے اقوال کے مقابلے میں قرآنی آیات و حدیث کو اہمیت دینے کو تیار نہیں ہوتے۔