إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ بِالْحَقِّ بَشِيرًا وَنَذِيرًا ۖ وَلَا تُسْأَلُ عَنْ أَصْحَابِ الْجَحِيمِ
اے پیغمبر ! یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم نے تمہی (خلق اللہ کی ہدایت کے لیے) بھیجا ہے اور اس لیے بھیجا ہے کہ (ایمان و عمل کی برکتوں کی) بشارت دو، اور (انکار حق کے نتائج سے) متنبہ کردو (یعنی تمہاری دعوت تمام تر خدا پرستی اور نیک عملی کی دعوت ہے۔ پھر جو لوگ نشانیاں مانگ رہے ہیں اگر فی الحقیقت ان میں سچائی کی طلب ہے تو غور کریں، تمہاری دعوت سے بڑھ کر اور کون سی نشانی ہوسکتی ہے؟ جو لوگ (اپنی محرومی و شقاوت سے) دوزخی گروہ ہوچکے، تم ان کے لیے خدا کے حضور جوابدہ نہیں ہوگے (تمہارا کام صرف پیام حق پہنچا دینا ہے)
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ تمہارے پاس جو رسول آیا تم خود جانتے ہوکہ اس نے آج تک کبھی جھوٹ نہیں بولا۔جو شخص کسی انسان سے جھوٹ نہیں بولتا وہ اللہ پر جھوٹ باندھ سکتا ہے۔اہل مکہ یہ جانتے تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ان پڑھ ہیں اور ان کا کوئی استاد بھی نہیں جس سے سیکھ کر وہ ایسا کلام پیش کرتے اگر تم اللہ اور اس كے نبی کو نہیں مانتے پھر تو کوئی نشانی بھی تمہیں ایما ن لانے پر مجبور نہیں کرسکتی۔ آگے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ آپ کا کا م صرف اللہ کا پیغام بندوں تک پہنچادینا ہے۔ اب اگر لوگ ایمان نہ لاکر دوزخ کے مستحق ٹھہرتے ہیں تو اس کے بارے میں آپ پر کچھ الزام نہیں ہے۔