وَإِن نَّكَثُوا أَيْمَانَهُم مِّن بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَطَعَنُوا فِي دِينِكُمْ فَقَاتِلُوا أَئِمَّةَ الْكُفْرِ ۙ إِنَّهُمْ لَا أَيْمَانَ لَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَنتَهُونَ
اور اگر یہ اپنے عہد و پیمان جو خود کرچکے ہیں توڑ ڈالیں اور تمہارے دین کو برا بھلا کہیں تو پھر (اس کے سوا چارہ نہیں کہ ان) کفر کے سرداروں سے جنگ کرو، یہ ایسے لوگ ہیں کہ ان کی سوگند سو گند نہیں (اور تمہیں جنگ اس لیے کرنی چاہیے) تاکہ یہ (ظلم و بد عہدی سے) باز آجائیں۔
وعدہ خلاف قوم کو دندان شکن جواب: اگر یہ مشرک اپنی قسموں کو توڑ کر وعدہ خلافی کریں اور تمہارے دین پر اعتراض کرنے لگیں تو تم کفر کے ان سروں کو توڑ دو۔ اس لیے علما نے کہا ہے کہ جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دے، دین میں عیب جوئی کرے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر اہانت کے ساتھ کرے اسے قتل کردیا جائے، ان کی قسمیں بے اعتبار ہیں اور یہی طریقہ ان کو کفر و عناد سے روکنے کا ہے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے شام کی طرف ایک لشکر بھیجا تو ان سے فرمایا کہ ’’تمہیں ان میں سے کچھ لوگ ایسے ملیں گے جن کی چندھیا منڈی ہوئی ہوگی، تو تم اس شیطانی بیٹھک کو تلوار سے دو ٹکڑے کردینا۔ واللہ ان میں سے ایک کا قتل دوسرے ستر لوگوں کے قتل سے مجھے زیادہ پسند ہے۔ اس لیے کہ فرمان الٰہی ہے کہ کفر کے اماموں کو قتل کردو۔ (ابن ابی حاتم: ۶/ ۱۷۶۱، ابن کثیر: ۲/ ۵۳۳)