فَإِذَا انسَلَخَ الْأَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَاحْصُرُوهُمْ وَاقْعُدُوا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ ۚ فَإِن تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَخَلُّوا سَبِيلَهُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
پھر جب حرمت کے مہینے گزر جائیں تو (جنگ کی حالت قائم ہوگئی) مشرکوں کو جہاں کہیں پاؤ قتل کرو اور جہاں کہیں ملیں گرفتار کرلو، نیز ان کا محاصرہ کرو اور ہر جگہ ان کی تاک میں بیٹھو، پھر اگر ایسا ہو کہ وہ باز آجائیں نماز قائم کریں اور زکوۃ ادا کریں تو ان سے کسی طرح کا تعرض نہ کیا جائے۔ بلا شبہ اللہ بڑا ہی بخشنے والا رحمت والا ہے۔
حرمت والے مہینوں سے مراد: ۱۰ ذی الحج ۹ ہجری سے لے کر ۱۰ربیع الثانی ۱۰ہجری تک چار ماہ کی مدت ہے، گویا اعلان کے بعد ان چار مہینوں میں مشرکین سے لڑنے اورا ن کے خلاف کسی اقدام کی اجازت نہیں تھی۔ جنگ نہ کرنے کی شرائط: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اس وقت تک لوگوں سے جنگ کروں جب تک وہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گواہی نہ دیں، اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں پھر جب وہ ہر کام کریں تو انھوں نے اپنی جانیں اور اپنے مال مجھ سے محفوظ کر لیے سوائے اسلام کے حق کے، اور ان کا حساب اللہ کے ذمہ ہے۔ (بخاری: ۲۵) یعنی ان مشرکوں کو صرف اسلام لانے کا اعلان یا توبہ کرنا ہی کافی نہیں، بلکہ یہ ثابت کرنے کے لیے نماز کا قیام اور زکوٰۃ کی ادائیگی بھی ضروری ہے۔ اور اگر کوئی مشرک ظاہری طور پر یہ تینوں شرائط پوری کردے، خواہ اسکی نیت میں فتور بدستور موجود ہو، تو اللہ اس سے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی نمٹ لے گا ۔ آپ ان کے خلاف کوئی کار روائی نہیں کرو گے۔