وَالَّذِينَ كَفَرُوا بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ إِلَّا تَفْعَلُوهُ تَكُن فِتْنَةٌ فِي الْأَرْضِ وَفَسَادٌ كَبِيرٌ
اور (دیکھو) جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی ہے وہ بھی (راہ کفر میں) ایک دوسرے کے کارساز و رفیق ہیں۔ اگر تم ایسا نہ کرو گے (یعنی باہمی ولایت اور بھائی چارگی کا جو حکم دیا گیا ہے اور وفائے عہد اور اعانت مسلمین کی جو تلقین کی گئی ہے اس پر کاربند نہیں رہو گے) تو ملک میں فتنہ پیدا ہوجائے گا اور بڑی ہی خرابی پھیلے گی۔
مسلمانوں کے اتحاد نہ کرنے کے بُرے نتائج: یعنی کافر اور مسلمان نہ ایک دوسرے کے دوست اور نہ وارث ہوسکتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ’’دو مختلف مذاہب حوالے آپس میں ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوسکتے نہ مسلمان کافر کا وارث اور نہ کافر مسلمان کا وارث پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی۔‘‘ (مستدرک حاکم: ۲/ ۲۴۰) فتنہ فساد سے مراد: سارے کافر تمہاری دشمنی میں متحد ہوکر ایک بن جاتے ہیں اور جہاں بھی مسلمانوں کو پاتے ہیں ان کے درپے آزاد ہوجاتے ہیں، اسی طرح اگر مسلمان بھی ایک دوسرے کی ولی اور مددگار نہ ہوں اور کمزور مسلمانوں کی مدد نہ کریں تو بہت بڑا فتنہ و فساد برپا ہوگیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’جب تمہارے پاس کسی ایسے شخص کی طرف سے نکاح کا پیغام آئے جس کے دین اور اخلاق سے تم خوش ہو تو اسکا نکاح کردو۔ لوگوں نے دریافت کیا یارسول اللہ! چاہے وہ انہی میں رہتا ہو۔ آپ نے فرمایا جس کے دین و اخلاق سے تم خوش ہو تو اسکا نکاح کردو تین مرتبہ فرمایا۔ (ترمذی: ۸۵۔ ۱۰۸۴) آیت کے ان الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم نے مشرکوں سے علیحدگی اختیار نہ کی اور ایمانداروں سے دوستیاں نہ رکھیں تو ایک فتنہ برپا ہوجائے گا۔ ابوداؤد کی روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو مشرکوں سے میل جول کررکھے اور انہی میں ٹھہرا رہے وہ انہی جیسا ہے۔ (ابو داؤد: ۲۶۴۵)