سورة الانفال - آیت 61

وَإِن جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا وَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور (دیکھو) اگر (دشمن) صلح کی طرف جھکیں تو چاہیے تم بھی اس کی طرف جھک جاؤ اور (ہر حال میں) اللہ پر بھروسہ روکھو۔ بلاشبہ وہی ہے جو (سب کی) سنتا اور (سب کچھ) جانتا ہے۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

اسلام امن پسند دین ہے: یعنی اگر حالات جنگ کے بجائے صلح کے متقاضی ہوں اور دشمن بھی صلح پر مائل ہو تو صلح کرلینے میں کوئی حرج نہیں، اگر صلح سے دشمن کا مقصد دھوکا اور فریب ہو تب بھی گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ اللہ پر بھروسہ رکھیں یقینا اللہ دشمن کے فریب سے بھی محفوظ رکھے گا اور وہ آپ کو کافی ہے۔ لیکن جب معاملہ اس کے برعکس ہو، مسلمان قو ت و وسائل میں ممتاز ہوں اور کافر کمزور اور ہزیمت خوردہ ہوں تو اس صورت میں صلح کی بجائے کافروں کی قوت و شوکت کو توڑنا ضروری ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿فَلَا تَهِنُوْا وَ تَدْعُوْا اِلَى السَّلْمِ وَ اَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ وَ اللّٰهُ مَعَكُمْ وَ لَنْ يَّتِرَكُمْ اَعْمَالَكُمْ﴾ (محمد: ۳۵) ’’پس تم بودے بن کر صلح کی درخواست پر نہ اُترآؤ جبکہ تم ہی بلندو غالب رہو گے اور اللہ تمہارے ساتھ ہے۔‘‘ اور فرمایا: ﴿وَ قَاتِلُوْهُمْ حَتّٰى لَا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ وَّ يَكُوْنَ الدِّيْنُ كُلُّهٗ لِلّٰهِ فَاِنِ انْتَهَوْا فَاِنَّ اللّٰهَ بِمَا يَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ﴾ (الانفال: ۳۹) ’’اور تم ان سے اس حد تک لڑوکہ ان میں فتنہ باقی نہ رہے اور دین پورے کا پورا اللہ کے لیے ہوجائے اور اگر یہ باز آجائیں تو جو کچھ یہ کریں گے اللہ دیکھ رہا ہے۔‘‘