وَإِمَّا تَخَافَنَّ مِن قَوْمٍ خِيَانَةً فَانبِذْ إِلَيْهِمْ عَلَىٰ سَوَاءٍ ۚ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْخَائِنِينَ
اور اگر ایک گروہ (ابھی میدان جنگ میں تو دشمنوں کے ساتھ نکلا ہے لیکن اس) سے تمہیں دغا کا اندیشہ ہے تو چاہیے ان کا عہد انہی پر الٹا دو۔ (یعنی عہد فسخ کردو) اس طرح کہ دونوں جانب یکساں حالت میں ہوجائیں (یعنی ایسا نہ کیا جائے کہ اچانک شکست عہد کی انہیں خبر دی جائے بلکہ پہلے سے جتا دینا چاہیے، تاکہ دونوں فریقوں کو یکساں طور پر تیاری کی مہلت مل جائے) یاد رکھو اللہ خیانت کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔
اللہ تعالیٰ خائنوں کو پسند نہیں کرتا: اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اے نبی( صلی اللہ علیہ وسلم ) اگر کسی سے آپ کا عہد و پیمان ہوا ہے اور آپ کو خوف ہوکہ وہ وعدہ خلافی یا بدعہدی کریں گے تو آپ کو اختیار دیا جاتا ہے کہ برابر ی کی بنیاد پر عہد نامہ توڑ دو اور انھیں اطلاع کردو تاکہ وہ بھی صلح کے خیال میں نہ رہیں، کچھ دن پہلے ہی انھیں خبردار کردو اللہ خیانت کو ناپسند کرتا ہے ۔کافروں سے بھی تم خیانت نہ کرو۔ حضرت امیر معاویہ نے لشکر کے ساتھ روم کی طرف پیش قدمی کی تاکہ مدت صلح ختم ہوتے ہی ان پر اچانک حملہ کردیں۔ کہ ایک شیخ اپنی سواری پر سوار یہ کہتے ہوئے آئے کہ اللہ بہت بڑا ہے۔ اللہ بہت بڑا ہے۔ وعدہ وفائی کرو۔ غدر درست نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جب کسی قوم سے عہد و پیمان ہوجائیں تو نہ کوئی گرہ کھولو نہ باندھو، جب تک کہ مدت صلح ختم نہ ہوجائے، یا انھیں اطلاع دیکر عہد نامہ چاک نہ ہوجائے، جب یہ بات حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو پہنچی تو آپ نے اُسی وقت فوج کو واپسی کا حکم دے دیا۔ (احمد: ۴/ ۱۱۱، ح: ۱۷۰۱۷، ابو داؤد: ۲۷۵۹)