وَإِذْ زَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ وَقَالَ لَا غَالِبَ لَكُمُ الْيَوْمَ مِنَ النَّاسِ وَإِنِّي جَارٌ لَّكُمْ ۖ فَلَمَّا تَرَاءَتِ الْفِئَتَانِ نَكَصَ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ وَقَالَ إِنِّي بَرِيءٌ مِّنكُمْ إِنِّي أَرَىٰ مَا لَا تَرَوْنَ إِنِّي أَخَافُ اللَّهَ ۚ وَاللَّهُ شَدِيدُ الْعِقَابِ
اور (پھر) جب ایسا ہوا کہ شیطان نے ان کے کرتوت ان کی نگاہوں میں خوشنما کر کے دکھا دیئے تھے اور کہا تھا آج ان لوگوں میں کوئی نہیں جو تم پر غالب آسکے اور میں تمہارا پشت پناہ ہوں مگر جب دونوں فوجیں آمنے سامنے ہوئیں تو الٹے پاؤں واپس ہوا اور لگا کہنے : مجھے تم سے کچھ سرور کار نہیں، مجھے وہ بات دکھائی دے رہی ہے جو تم نہیں دیکھتے، میں اللہ سے ڈرتا ہوں اور اللہ (بدعملیوں کی پاداش میں) بہت سخت سزا دینے والا ہے۔
قریش جب مکہ سے نکلے تو انھیں اپنے حریف بنو کنانہ سے خطرہ تھا کہ کہیں وہ مسلمانوں کی حمایت کرکے ہمارے لیے خطرہ، یا شکست کا باعث نہ بن جائیں۔ چنانچہ شیطان بنو کنانہ کے ایک سردار سراقہ بن مالک کی صورت بناکر آیا اور ابوجہل سے کہنے لگا کہ آج کے دن تم پر کوئی غالب نہیں آسکتا اور میں بھی تمہارے ساتھ ہوں۔ پھر جب میدان کا راز گرم ہوا، اور اس نے مسلمانوں کی مدد کے لیے فرشتے اترتے دیکھ لیے تو وہاں سے کھسکنے لگا، ابوجہل نے کہا عین مشکل کے وقت اب تم کہاں جارہے ہو، کہنے لگا جو کچھ مجھے نظر آرہا ہے وہ تم نہیں دیکھ سکتے۔ اللہ کا خوف تو اس کے دل میں کیا ہونا تھا تاہم اسے یقین ہوگیا تھا کہ مسلمانوں کو اللہ کی خاص مدد حاصل ہے۔ مشرکین ان کے مقابلہ میں نہیں ٹھہر سکیں گے۔ قرآن میں ہے شیطان انسان کو کفر کا حکم دیتا ہے پھر جب وہ کفر کر چکتا ہے تو یہی کہنے لگتا ہے کہ میں تم سے بیزار ہوں میں رب العالمین سے ڈرتا ہوں۔