سورة الانفال - آیت 34

وَمَا لَهُمْ أَلَّا يُعَذِّبَهُمُ اللَّهُ وَهُمْ يَصُدُّونَ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَمَا كَانُوا أَوْلِيَاءَهُ ۚ إِنْ أَوْلِيَاؤُهُ إِلَّا الْمُتَّقُونَ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

لیکن (اب کہ تجھے مکہ چھوڑ دینے پر انہوں نے مجبور کردیا) کون سی بات رہ گئی ہے کہ انہیں عذاب نہ دے حالانکہ وہ مسجد حرام سے مسلمانوں کو روک رہے ہیں؟ اور حقیقت یہ ہے کہ وہ اس کے متولی ہونے کے لائق نہیں، اس کے متولی اگر ہوسکتے ہیں تو ایسے ہی لوگ ہوسکتے ہیں جو متقی ہوں (نہ کہ مفسد و ظالم) لیکن ان میں سے اکثر کو (یہ حقیقت) معلوم نہیں۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

تو لیت کعبہ کے لیے شرائط : مشرکین اپنے آپ کو (خانہ کعبہ )مسجد حرام کامتولی سمجھتے تھے ۔اور اس اعتبار سے جس کو چاہتے طواف کی اجازت دیتے اور جس کو چاہتے نہ دیتے، چنانچہ مسلمانوں کو بھی وہ مسجد حرام میں آنے سے روکتے تھے ۔حالانکہ وہ اسکے متولی نہیں تھے بلکہ زبر دستی قبضہ کر رکھا ہے ۔او رکہتے ہیں کیونکہ ہم سیدنا ابراہیم کی اولاد ہیں، تو لیت کعبہ کے لیے سید نا ابراہیم علیہ السلام کی اولاد ہو نا کافی نہیں بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے دین پر ہو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ خانہ کعبہ کے متولی تو متقی ہی بن سکتے ہیں نہ کہ مشرک اور اللہ ان لوگوں کو کیوں عذاب نہ دے ۔جس عذاب کا ذکر کیا گیا ہے ۔اس سے مراد فتح مکہ ہے ۔جو مشرکین کے لیے عذاب الیم کی حیثیت رکھتا ہے ۔ واقعہ حدیبیہ : ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿هُمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَ صَدُّوْكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَ الْهَدْيَ مَعْكُوْفًا اَنْ يَّبْلُغَ مَحِلَّهٗ وَ لَوْ لَا رِجَالٌ مُّؤْمِنُوْنَ وَ نِسَآءٌ مُّؤْمِنٰتٌ لَّمْ تَعْلَمُوْهُمْ اَنْ تَطَـُٔوْهُمْ فَتُصِيْبَكُمْ مِّنْهُمْ مَّعَرَّةٌۢ بِغَيْرِ عِلْمٍ لِيُدْخِلَ اللّٰهُ فِيْ رَحْمَتِهٖ مَنْ يَّشَآءُ لَوْ تَزَيَّلُوْا لَعَذَّبْنَا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْهُمْ عَذَابًا اَلِيْمًا﴾ (الفتح: ۲۵) ’’یہ مکہ والے ہی تو ہیں جنھوں نے کفر کیا ور تمہیں مسجد حرام سے روکا،اور قربانی کے جانوروں کو بھی نہ آنے دیا،کہ وہ جہاں تھے وہیں کے وہیں کھڑے رہے او راپنے حلال ہونے کی جگہ نہ پہنچ سکے، اور اگر شہر مکہ میں کچھ مسلمان مرد اور کچھ مسلمان عورتیں ایسی نہ ہوتیں کہ تم ان کے حال سے واقف نہیں تھے، اور عین ممکن تھا کہ لڑائی کی صورت میں تم انھیں بھی پامال کر ڈالتے اور دانستہ ان کی طرف سے تمہیں نقصان پہنچ جاتا، تو بیشک اسوقت تمہیں لڑائی کی اجازت مل جاتی اس وقت کی صلح اس لیے ہے کہ اللہ جسے چاہے اپنی رحمت میں لے لے، اگر مکہ میں رُکے ہوئے مسلمان وہاں سے کہیں ہجرت کرجاتے تو یقینا ان کا فروں کو درد ناک مار ماری جاتی۔‘‘ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی باعث امن رہی اور ضعیف لوگوں کے استغفار کرنے سے عذاب نہ آیا اور جب وہ بھی مکہ سے نکل گئے، تب یہ آیت اُتری، کہ اب کوئی روکاوٹ باقی نہیں رہی تب مسلمانوں کو مکہ پرچڑ ھائی کرنے کی اجازت مل گئی