وَإِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِيُثْبِتُوكَ أَوْ يَقْتُلُوكَ أَوْ يُخْرِجُوكَ ۚ وَيَمْكُرُونَ وَيَمْكُرُ اللَّهُ ۖ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ
اور (اے پیغمبر) وہ وقت یاد کرو جب (مکہ میں) کافر تیرے خلاف اپنی چھپی تدبیروں میں لگے تھے تاکہ تجھے گرفتار کر رکھیں یا قتل کر ڈالیں یا جلا وطن کردیں اور وہ اپنی مخفی تدبیریں کر رہے تھے اور اللہ اپنی مخفی تدبیریں کر رہا تھا، اور اللہ بہتر تدبیر کرنے والا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قید یا قتل کرنے کا مشورہ: جب کچھ لوگ ہجرت کر کے مدینہ چلے گئے تو قریش کو خطرہ لاحق ہوا کہ اگر محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) مکہ سے ہمارے ہاتھوں سے نکل گئے تو یہ خطرہ ہمارے قابو سے نکل جائے گا ۔اس غرض کے لیے انھوں نے دار الندوہ میں میٹنگ کی شیطان اس میٹنگ میں انسانی شکل میں حاضر ہو اتھامختلف تجاویز آئیں، کسی نے کہا قید کر دو، کسی نے کہا جلا وطن کر دو، ابوجہل نے کہا کہ ہر قبیلے کا ایک ایک نوجوان مل کر ایک ساتھ حملہ کر کے انھیں قتل کر دیں تو کسی پر الزام نہیں آئے گا، اور ہم اس بَلا(نعو ذباللہ) سے چھوٹ جائیں گے۔ ادھر یہ مشورے ہو رہے تھے اُدھر اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس ساری کار روائی سے مطلع کر دیا۔ مسند احمد میں مروی ہے کہ مکہ میں رات کو مشرکوں کا مشورہ ہو ا اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مطلع فرمادیا،اس رات حضرت علی رضی اللہ عنہ آپکے بستر پر سوئے آپ مکہ سے نکل کر غار میں جا کر بیٹھ رہے مشرک ساری رات پہرہ دیتے رہے اور صبح سب کو دکر اند ر پہنچے دیکھا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں ساری تدابیر چوپٹ ہو گئیں ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پو چھا تمہارے ساتھی کہاں ہیں آپ نے لا علمی ظاہر کی، یہ لوگ قدموں کے نشان دیکھتے ہوئے اس پہاڑ تک پہنچ گئے، غار کے پاس گزرے دیکھا وہا ں مکڑی نے جالا تنا ہوا ہے کہنے لگے اگر اس میں جاتے تو یہ جالا کیسے تنا رہ جاتا ؟حضو ر صلی اللہ علیہ وسلم نے تین راتیں اسی غار میں گزار یں۔‘‘ (مسند احمد: ۱/ ۳۳۰، ح: ۳۰۶۲، مستدرک حاکم: ۳/ ۴) پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اُنہوں نے مکر کیا، میں بھی ان سے ایسی مضبوط چال چلا کہ تجھے ان سے بچا کرلے ہی آیا ۔