إِنَّ الَّذِينَ عِندَ رَبِّكَ لَا يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِهِ وَيُسَبِّحُونَهُ وَلَهُ يَسْجُدُونَ ۩
جو اللہ کے حضور (مقرب) ہیں وہ کبھی بڑائی میں آکر اس کی بندگی سے نہیں جھجکتے، وہ اس کی پاکی و ثنا میں زمزمہ سنج رہتے رہیں اور اسی کے آگے سربسجود ہوتے ہیں۔
اکڑنا شیطان کا کام ہے ۔اس لیے فرشتوں کی تعریف بیان کی گئی ہے کہ وہ رات دن اللہ کی تسبیح میں لگے رہتے ہیں بالکل تھکتے نہیں اور اس لیے ان کا ذکر فرمایا کہ کثرت عبادت و اطاعت میں ان کی پیروی کی جائے ارشاد نبوی ہے: ’’تم اس طرح صفیں کیوں نہیں باند ھتے جیسے کہ فرشتے اپنے رب کے پاس صفیں باندھتے ہیں کہ وہ پہلے اول صف کو پورا کرتے ہیں، اور صفوں میں ذراسی گنجائش اور جگہ نہیں چھوڑتے۔‘‘ (مسلم: ۴۳۰) اس آیت کے اختتام پر مسلمانوں کو بھی سجدہ کا حکم دیا گیا ہے ۔تاکہ ان کا حال بھی ملا ئکہ مقربین کے حال کے مطابق ہو جائے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب ابن آدم سجدہ کی آیت پڑھتا ہے اور سجدہ کرتا ہے توشیطان روتے ہوئے علیحدہ ہو جاتا ہے اور کہتا ہے: ’’میری بربادی ابن آدم کو سجدہ کا حکم ملا تو اس نے سجدہ کی تو اسکے لیے جنت ہے۔ اور مجھے حکم ملا تو میں نے انکار کیا تو میرے لیے دوزخ ہے۔‘‘ (مسلم: ۸۱) سجدہ ہا ئے تلاوت: قرآن کریم میں چودہ مقامات ہیں جہاں آیات سجدہ آئی ہیں، وجوب سجدہ میں اختلاف ہے ۔تاہم مستحب یہی ہے کہ سجدہ تلاوت انہی آداب کے ساتھ بجالا یا جائے جیسا کہ نماز میں سجدہ کیا جاتا ہے یعنی با وضو اور قبلہ رخ ہو کر ادا کیا جائے ۔