خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ
(بہرحال) نرمی و درگزر سے کام لو، نیکی کا حکم دو، جاہلوں کی طرف متوجہ نہ ہو۔
داعی حق کے لیے ہدایات : (1) عفوو درگزر (2) اچھی باتوں کا حکم (3) بحث سے پرہیز (4) جوابی کارروائی سے اجتناب۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو نہایت مختصر الفاظ میں تین نصیحتیں فرمائیں (1)داعی حق کو نرم ُخو، متحمل مزاج، اور عالی ظرف ہونا چاہیے، اپنے ساتھیوں کے لیے شفیق اور اپنے مخالفوں کے لیے حلیم ہونا چاہیے، اپنے رفقاء کی کمزوریوں اور اپنے مخالفوں کی اشتعال انگیزیوں پر بھی اپنے مزاج کو ٹھنڈا رکھنا چاہیے، نہایت ناگوار باتوں کو بھی اعلیٰ ظرفی سے ٹال دینا چاہیے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’میرے رب نے مجھے حکم دیا ہے، کہ غضب ور ضا دونوں حالتوں میں انصاف کی بات کہوں، جو مجھ سے کٹے میں اُس سے جڑوں، جو مجھے میرے حق سے محر وم کرے میں اُسے اسکا حق دوں جو میرے ساتھ ظلم کرئے میں اُسکو معاف کروں۔‘‘ (مسند احمد: ۴/ ۱۴۸، ترمذی: ۲۴۰۶) اور اسی چیز کی آپ لوگوں کو ہدایت کرتے تھے۔ (2) صاف اور سادہ الفاظ میں لوگوں کو بھلائیوں کی طرف دعوت دینا چاہیے اس انداز سے جسے لوگ برا محسوس نہ کریں اس کی بہترین مثال یہ واقعہ ہے کہ جب آپ نے معاذ بن جبل کو یمن کا گورنر بنا کر بھیجا تو یہ ہدایات فرمائیں: ’’سب سے پہلے لوگوں کو ایک اللہ کی طرف دعوت دو،پھر جب وہ اسلام لے آئیں تو انھیں بتلاؤ کہ تمہارے پروردگار نے تم پر دن بھر میں پانچ نماز یں فرض کی ہیں، پھر جب وہ اس پر عمل کرنے لگیں تو پھر بتا نا کہ تمہارے اموال پر اللہ تعالیٰ نے زکوۃ فرض کی ہے، اور دیکھوزکوۃ وصول کرتے وقت ان کے عمدہ مال لینے سے اجتناب کرنا، اور مظلوم کی بد دعا سے بچتے رہنا، کیونکہ اللہ اور مظلوم کی بد دُعا کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں ہوتا۔ (بخاری: ۱۳۹۵) اور یہ بھی فرمایا کہ جہاں تم جاؤ،تمہاری آمد لوگوں کے لیے خوشی کا با عث بنے، نفرت کا باعث نہ بنے اور تم لوگوں کے لیے سہولت کا موجب بنو، تنگی اور سختی کا موجب نہ بنو۔(بخاری: ۳۰۳۸) (3)تیسری بات یہ کہ اعتراض برائے اعتراض اور بحث برائے بحث کرنے والوں سے کنارہ کش رہنے کی کوشش کرو، ایسے لوگوں کے اعتراضات اور طعن و تشنیع کا جواب دینے میں اپنا وقت ضائع نہ کرو بلکہ ان سے بے نیاز ہو کر اپنا سفر جاری رکھنا ہے،سیدھے سادے طریقے سے بھلا ئیوں کی طرف بلاؤ ۔جو ہر انسان کی سمجھ میں آجائیں ۔