وَلَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنَاهُ بِهَا وَلَٰكِنَّهُ أَخْلَدَ إِلَى الْأَرْضِ وَاتَّبَعَ هَوَاهُ ۚ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ الْكَلْبِ إِن تَحْمِلْ عَلَيْهِ يَلْهَثْ أَوْ تَتْرُكْهُ يَلْهَث ۚ ذَّٰلِكَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا ۚ فَاقْصُصِ الْقَصَصَ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ
اور اگر ہم چاہتے تو ان نشانیوں کے ذریعہ اس کا مرتبہ بلند کرتے (یعنی دلائل حق کا جو علم ہم نے دیا تھا وہ ایسا تھا کہ اگر اس پر قائم رہتا اور ہماری مشیت ہوتی تو بڑا درجہ پاتا) مگر وہ پستی کی طرف جھکا اور ہوائے نفس کی پیروی کی، تو اس کی مثال کتے کی سی ہوگئی۔ مشقت میں ڈالو جب بھی ہانپے اور زبان لٹکائی، چھوڑ دو جب بھی ایسا ہی کرے، ایسی ہی مثال ان لوگوں کی ہے جنہوں نے ہماری نشانیاں جھٹلائیں تو (اے پیغمبر) یہ حکایتیں لوگوں کو سناؤ تاکہ ان میں غور و فکر کریں۔
کتے کی دو حالتیں (1) اضطراری (2) اختیاری، لیکن یہ ہر حال میں زبان منہ سے باہر نکالے رکھتا ہے، اور ہا نپتا رہتا ہے دنیا کے کتے کی بھی یہی کیفیت ہے، ایک دفعہ انسان شیطان کے پھندے میں آ گیا پھر اسے مجبوری ہو یا نہ ہوبہر حال وہ دنیا کے طمع کی طرف لپکتا ہے اور حلال و حرام، جائز و ناجائزکی تمیز ختم ہو جاتی ہے کتے پر شہوت شکم کے بعد اگر کوئی چیز غالب ہے تو وہ شہوت فر ج ہے اپنے سارے جسم میں وہ صرف اپنی شرمگاہ میں دلچسپی رکھتا ہے اور اسی کو سو نگھنے اور چاٹنے میں مشغول رہتا ہے پس تشبیہ کا مقصد یہ ہے کہ دنیا پرست آدمی نفس کی اندھی خواہشات کے ہا تھ میں اپنی باگیں دے دیتا ہے تو پھر کتے کی حالت پر پہنچے بغیر نہیں رہتا، ہمہ تن پیٹ اور ہمہ تن شرمگاہ۔